عمران خان فائنل کی جانب گامزن

تحریر : انور ساجدی
تحریک انصاف کے مصلحت پسند میانہ رو یعنی الیکٹیبلر نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگر عمران خان نے آخری اور فیصلہ کن لڑائی کا فیصلہ کرلیا تو پارٹی کےلئے بہت مشکلات پیدا ہونگی چکوال کے جلسہ میں وہ جس طرح کھل کر تڑیاں لگارہے تھے اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ وہ پہلے مسٹر ایکس اور وائی سے لڑیں گے اس کے بعد انہیں یقینی طور پر خطرناک سونامی کا سامنا کرنا پڑے گاعمران خان کافی عرصہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ بھٹو کا انجام کیا ہوا کیا عمران خان ایسے دردناک اور عبرتناک انجام کےلئے تیار ہیں؟ کیا انہوں نے چلّی کے وزیراعظم آ لندے اور ترکی کے وزیراعظم عدنان منددیس کی کہانی پڑھی ہے کیا انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو خاندان کے ساتھ جو مظالم ہوئے اس کا مشاہدہ کیا ہے؟ تحریک انصاف کے معصوم کارکن سوشل میڈیا پر ہر روز یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کےلئے جان کی قربانی کےلئے تیار ہیں اور یہ کہ اگر خان صاحب کو کچھ ہوا تو مخالفین کے ایک ایک بچے کونہیں چھوڑیں گے یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ کارکن کہہ رہے ہیں کہ اگر خان صاحب حکم دیں تو وہ ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے کو بھی تیار ہیں اس سے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کہیں عمران خان کے ذہن میں چند سال قبل طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت تو موجزن نہیں ہے جب ان کی کال پر لوگ سڑکوں پر آئے تھے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے عمران خان مقتدرہ کے خلاف لڑائی میں کس حد تک جائیں گے یہ معلوم نہیں لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ نوبت ٹینکوں کی لڑائی تک آئے؟ یہ تو وقت بتائے گا لیکن عمران خان کا اس وقت عمل اور طرزعمل پراز تضادات ہے ایک طرف وہ رات کی تاریکی میں پیر پکڑکر رحم کی اپیل کررہے ہوتے ہیں دوسری جانب وہ اپنے کارکنوںکو تیار کررہے ہیں کہ وہ پائیہ تخت کا اس وقت تک محاصرہ کریں جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوجاتا شاید انہیں خدشہ ہے کہ رانا ثناءاللہ اسلام آباد پرچڑھائی کے وقت ٹینک لائیں گے اور پھر عمران خان کے فدائی دستے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیں گے خان صاحب نے چکوال کے جلسہ میں اپنے ہزاروں پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سب سے بڑی طاقت عوام کی ہے یہ ملک عوام کا ہے تو تمام فیصلوں کا اختیار عوام کو ہے اس بات کا مقصد ان حلقوںکو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ عوام کی طاقت ان کے ساتھ ہے کپتان آج کل اضطراب غصہ اور ہزیانی کیفیت میں اس لئے مبتلا ہیں کہ نومبرقریب آرہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اہم تقرری ان کے ہاتھوں سے نہیں ہوگی اور یہ مقدس فریضہ مسکین اور کمزور شخص شہباز شریف کے ہاتھوں سے ہوگی کیونکہ خان صاحب اس وقت اپوزیشن میں ہیں اور وزیراعظم کے عہدے پر فائز نہیں ہیںاز روئے آئین صرف یہ اختیار وزیراعظم کا ہے کہ وہ فہرست میں درج کس عالی قدر کو چیف مقرر کرتے ہیں عمران خان کئی دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چور اور ڈاکو مل کر ملک کے سپہ سالار کا تقرر کریں چکوال کے جلسہ میں انہوں نے یہ تک کہا کہ وہ ان چوروں کے ہاتھوںتقرر نہیں ہونے دیں گے سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیا کریں گے کہ یہ تقرر رک جائے ہاں اگر ان کی یہ تجویز مان لی جائے کہ نئے چیف کے تقرر تک موجودہ چیف کو توسیع دی جائے تو یہ ممکن ہے اور تنازعہ سے بچنے کا یہی واحد راستہ ہے ویسے یہ خان صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے پہلی بار اتنی حساس تقرری کو نہ صرف متنازعہ بنادیا ہے بلکہ اسے عوام کے سامنے بھی لے گئے ہیں ان کی طاقت اتنی زیادہ ہے اتنا کچھ کرنے کے باوجود ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا ہے اس کی مختلف توجہیات پیش کی جاتی ہیں مثال کے طور پر ایک تو ان کی عوامی حمایت ہے دوسرا یہ کہ ان کی حمایت ہر جگہ اور ہر ادارے میں سرایت کرگئی ہے یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر عمران خان پر ہاتھ ڈالا گیا تو ملک میں بغاوت کی کیفیت پیدا ہوجائے گی جو انتشار اور انارکی صورت اختیار کرلے گی ایک اہم وجہ عمران خان کا طاقتور بیانیہ ہے وہ مسلسل عوام کو بتارہے ہیں کہ آزادی اور انقلاب کی جانب بڑھیں انقلاب کس کے خلاف؟ ظاہر ہے کہ مولانا، زرداری اور نواز شریف کے خلاف تو وہ انقلاب نہیں لائیں گے وہ اگر انقلاب لائیں گے تو ”پاور فل اسٹیٹس کو“ اور پاور اسٹرکچر کے خلاف لائیں گے اگر انہوں نے اعلان جنگ کردیا تب ہی پتہ چلے گا کہ موصوف کتنے پانی میں ہیں۔
ملک کی تاریخ میں آج تک جس جس نے مقتدرہ کو چیلنج کیا وہ ناکام رہا چاہے وہ بھٹو ہوں یا نوازشریف انہیں دوبارہ سمجھوتہ کرنا پڑا سردست تو عمران خان کا سارا واویلا سمجھوتہ کےلئے ہے وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ جلد از جلد انتخابات کروا کر اقتدار ان کے حوالے کیا جائے تاکہ تمام اختیارات ان کے ہاتھوں میںہو حالانکہ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں انہیں تجربہ ہوچکا ہے کہ آئین پارلیمانی نظام اور جمہوریت کن کن بلاﺅں کے نام ہیں اور اصل بالادستی کس کو حاصل ہے وہ میرٹ کی بات کرتے ہیں لیکن انہوں نے بزدار اور محمود خان کو کسی میرٹ کے بغیر وزیراعلیٰ بنایااسی طرح اہم وفاقی اداروں میں بھی انہوں نے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں کیں اگر میرٹ کی بات کی جائے تو عمران خان خود کتنا میرٹ پر پورا اترتے ہیں حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ معصومانہ مطالبہ کررہے ہیں کہ آرمی چیف کی تقرری ان کی مرضی سے کی جائے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ یہ تقرری کسی اپوزیشن رہنما کی خواہش پر کی جائے ان سے برداشت نہیں ہورہا ہے کہ چور ڈاکو یہ تقرری کریں ان کا یہ کہنا کہ یہ مرضی کا چیف لانا چاہتے ہیں حالانکہ چیف چیف ہوتا ہے وہ کسی کی مرضی پر نہیں چلتا اس بات کو لیکر عمران خان مرنے مارنے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں حتیٰ کہ جلسے میں گالیاں دے کر رات کو انہوں نے ملک صاحب کو زرداری کے پاس بھیجا آﺅ ہم دونوںن لیگ کے خلاف اکٹھے ہوتے ہیں اگر زرداری دن کو سب سے بڑی بیماری ہیں تو رات کو وہ درد کی دوا کیوں ہیں خان صاحب کا ہزیان اور بدکلامی بھی بڑھتی جارہی ہے انہوں نے چکوال کے جلسہ میں بلاول کو ”دیسی ولائتی“ کا لقب دیا جبکہ سوشل میڈیا پر سوالوں کا طوفان ہے کہ خان صاحب کے اپنے صاحبزادے جو مستقل طور پر لندن میں مقیم ہیں اور برطانیہ کے شہری ہیں وہ کیا ہیں شاید خان صاحب خوش ہیں کہ ان کے بیٹے مکمل ولائتی ہیں خدشہ یہ ہے کہ نومبر سے پہلے وہ کوئی کھلی جنگ نہ چھیڑ دیں اور کسی بڑے بم کو لات نہ مار دیں ان کی بے تابی کسی بھی حادثے کو جنم دے سکتی ہے اگر انہوں نے اسلام آباد کا محاصرہ کیا تو وہیں پر حتمی فیصلہ ہوجائےگا اور ٹینکوں کے آگے لیٹنے والے کافور ہوجائیں گے اور وہ کسی سڑک پر اکیلے کھڑے ہوکر درختوں سے خطاب کررہے ہونگے تحریک انصاف ابھی کسی آزمائش سے نہیں گزری اگر ان کے کارکنوں کو 25 مئی سے زیادہ خطرناک صورت در پیش ہوئی تب پتہ چلے گا کہ یہ کتنے جوان مرد اور شیر ہیں بڑھک بازی کرنا آسان ہے لیکن میدان جنگ میں رہ کر لڑنا مشکل کام ہے عمران خان اپنے سیاسی دشمن خود ہیں اور وہ ہر روز حالات کو سدھارنے کی بجائے اپنے لئے ناموافق بنارہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں