کوئے ملامت

انور ساجدی
جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کو جونظام دیا وہ کامیابی کے ساتھ جاری وساری ہے سیاست ہو معیشت ہو انسانی حقوق کی پامالی ہو ملائیت کا عروج ہو جس طرف دیکھو ایک ہی نظام دکھائی دے رہا ہے سیاست میں ضیاء الحق کے جانشین نہ صرف اقتدار میں ہیں بلکہ اپوزیشن پر بھی ان کا غلبہ ہے کہنے کو تو18ویں ترمیم کے بعد بھٹو کا دیا ہوا آئین نافذ ہے لیکن ضیاء الحق نے62اور63کا جواضافہ کیاوہ سختی کے ساتھ برقرارہے آئین میں ترمیم کے وقت موصوف کے جانشین نوازشریف اس ترمیم کے خاتمہ کی راہ میں آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے یہ الگ بات کہ ضیائی افکار ونظریاتی کی اصل وارث مقتدرہ نے نوازشریف کو اسی دفعہ کے تحت نااہل قراردیدیا اس وقت جواقلیتی حکومت قائم ہے اسے ضیائی نظریات نے خطرات سے بچاکر رکھا ہوا ہے کیونکہ اپوزیشن اپنے مفادات کی وجہ سے تقسیم ہے کوئی دوروز ہوئے ضیاء الحق کے دست راست انکی کابینہ کے سینئروزیراردن میں فلسطینی عوام پر بمباری کے ساتھی خاقان عباسی کے فرزندسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں آکر فرمایا کہ انکی جماعت موجودہ حکومت کو ہٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وہ کراچی اس لئے تشریف لائے تھے کہ ضیائی ذہن کی اختراع جماعت ایم کیو ایم سے ازسرنو تعلقات استوار کئے جائیں ایم کیو ایم اور ن لیگ نظریاتی طور پر بہت قریب ہیں اسکی ایک وجہ تو ضیاء الحق ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ہرقدم اٹھانے کیلئے ایک ہی جگہ سے ہدایات وصول کرتے ہیں اگر بہت غور سے دیکھاجائے تو اپوزیشن کی موثر جماعت جے یو آئی بھی ضیاء الحق سے فیض یافتہ ہے۔وہ ایم کیوایم کے ساتھ پرویز مشرف کی کابینہ میں شراکت کا مزہ اٹھاچکی معاشرتی ہئیت اور لبرل ازم کی مخالفت میں ایم کیو ایم ن لیگ اور تمام مذہبی جماعتیں ایک صف میں کھڑی نظرآتی ہیں۔بادی النظرمیں یہ تمام جماعتیں ”اسٹیٹس کو“ کی علمبردار ہیں اور ایساخلا نہیں چھوڑناچاہتیں کہ کوئی اور آجائے حال ہی میں مولانا نے ثابت کردیا کہ انکی تمام تر امیدیں مقتدرہ سے وابستہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ جن طاقتوں نے حکومت ہٹانے کیلئے جو یقین دہانیاں پرویزالٰہی کے ذریعے کی تھیں ان پر عملدرآمد کیاجائے،مولانا کے سابقہ مارچ نے بڑے مقاصد پورے کئے تھے اور تحریکی حکومت کے ادھ موا کرکے اسکے اختیارات سلب کئے تھے اب جبکہ مولانا عورت مارچ کی مخالفت کرکے اپنا نیامارچ شروع کرنے والے ہیں تو اسکے فوائد بھی مولانا کی بجائے اور طاقتیں اٹھائیں گی۔اب جبکہ نام نہاد اپوزیشن مزید تقسیم ہے کسی بھی جماعت کی سولو فلائٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا مولانا کولانگ مارچ کے ذریعے یہ باور کرایاگیا تھا کہ اصل اپوزیشن جماعت جے یو آئی ہے اس کا نقصان پہلے مرحلے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کوہواتھا لیکن نظریاتی طور پر اب ن لیگ اور مولانا زیادہ قریب آگئے ہیں لیکن ن لیگ اب بھی کسی تحریک میں ان کا ساتھ نہیں دے گی کیونکہ اس نے اپنے تعلقات اوپر سے استوار کرلئے ہیں اور وہ مزید عنایتوں اور رعایتوں کیلئے مزید سپاس گزارہے۔اسے ضیاء الحق کے مضبوط افکار کاکمال کہئے کہ حکومت بھی اسکے پیروکاروں کی اپوزیشن بھی اسکے حامیوں کی اوربیچ میں پیپلزپارٹی نہ تین میں ہے اور نہ تیرہ میں لگتا ہے کہ اندر سے زرداری بھی ضیاء الحق کے پیروکار ہیں وہ اپنے صاحبزادہ کوآزادی کے ساتھ سیاست کرنے اور پیپلزپارٹی کا نظریہ طے کرنے کی اجازت دینے سے صاف انکاری ہیں۔عورتوں کے حقوق کے مسئلہ دیکھئے تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں صرف بلاول نے اسکی حمایت کی ہے لیکن کیامعلوم کہ آصف علی زرداری کب کوئی ہدایت جاری کرے اور بلاول کو پیچھے ہٹنا پڑے حالانکہ کافی عرصہ کے بعد نئی صف بندی ہوئی ہے اس نے ایک خلا چھوڑا ہے اورپیپلزپارٹی کیلئے دوبارہ گنجائش پیداہوئی ہے کہ وہ پنجاب میں آگے بڑھے لیکن پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی ہے کیا؟اس کا نظریہ وہی پرانا ہے یازرداری صاحب نے کوئی نیا نظریہ وضح کیاہے۔
پاکستانی سماج کی اس وقت جو ساخت ہے اس میں نہ کھانے پینے کی اشیاء خالص ہیں اور نہ ہی سیاسی نظریات،بدقسمتی سے یہاں سوشلزم کوبھی اور معنی پہنائے گئے حالانکہ یہاں پر اس نظام سے مرادمسادات ہے یعنی امرء اور غرباء میں جوتضادات ہے اس کو کم کرکے مساوات لائی جائے اگلے دن لاہور میں عورت مارچ کی حمایت کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال پربلاول غیرواضح دکھائی دیئے حالانکہ انہوں نے سوشلزم کے حوالے سے جواب دینے کی کوشش کی لیکن لگتا ہے کہ چوہدری منظور نے اچھی تیاری نہیں کروائی تھی پھر بھی انہوں نے یہ واضح طور پر بتایا کہ پیپلزپارٹی ایک لبرل جماعت ہے اور وہ خواتین کے حقوق کی حمایت کرتی ہے انہوں نے مولانا کو سخت ہدف بناکر اپنے والد سے ان کا دیرینہ الائنس توڑنے کی نادانستہ کوشش کی اگرچہ چوہدری اعتزاز احسن زیادہ بزرگ اورضعیف ہوگئے ہیں لیکن ن لیگ کے بارے میں ان کی پیشنگوئیاں درست ثابت ہورہی ہیں وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ بلاول کو صحیح گائڈ لائن فراہم کریں لیکن چوہدری منظور پوری کوشش کررہے ہیں کہ وہ بلاول کو نئی سمت فراہم کریں وہ جانتے ہیں کہ ن لیگ اورتحریک انصاف تمام تر ظاہر دشمنی کے باوجود نظریات کے اعتبارسے ایک ہیں انکے درمیان قیضہ اقتدار کا ہے چوہدری اعتزاز کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر اس ریاست کے مدار پر کوئی براوقت آجائے تو ن لیگ سہارا دینے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت میں بھی شامل ہوسکتی ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ ساری جماعتیں ایک ہی مدار کے گرو گردش کررہی ہیں یا ضیاء الحق کے وضع کردہ نظام کا طواف کررہی ہیں زرداری کو تو جعلی اکاؤنٹس کیس نے کمزورکیا ہے حالانکہ عبدالغنی مجید کی ضمانت کے بعد یہ کیس کہاں باقی رہا اس کا مقصد بھی پیپلزپارٹی کواسی مدارکے گرد لانا تھا جو وہ آگئی لیکن یہ پارٹی جو نہ ادھر ہے نہ ادھر اسکو ٹھوس قدم اٹھاناہوگا۔کیونکہ یہ اس کی بقاء کا مسئلہ ہے جب بقاء کا مسئلہ درپیش ہوتو خطرات کا سامنا کرنا ضروری ہوتا ہے یہ رسک بلاول کولینا پڑے گا جیسے کہ عورت مارچ کی حمایت کرکے انہوں نے کئی خطرات کو دعوت دی ہے مردوں کی بالادستی کے اس سماج میں عورتوں کی حمایت کرنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ عورتیں باجماعت جاکر پیپلزپارٹی کو تو ووٹ نہیں ڈالیں گی بلکہ بیشتر خواتین گھروں میں بیٹھنے کوترجیح دیتی ہیں گزشتہ انتخابات میں خواتین نے زبردستی گھروں سے نکل کر تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا غالباً اب وہ پچھتا رہی ہونگی کیونکہ لیڈر کی اپنی اہلیہ سات غلافوں میں ملبوس ہے تو اس کی جماعت نے خواتین کیلئے کونسی توپ چلانی ہے۔
”اسٹیٹس کو“توپیپلزپارٹی بھی چاہتی ہے وہ بھی تبدیلی لانے کے حق میں نہیں ہے تبدیلی سے اسکی مراد اقتدار ہے جو آئندہ باری میں اسکی جھولی میں آجانا چاہئے لیکن آمریت کے سابق ادوار میں یہ جماعت محنت کشوں،کسانوں اور مظلوم طبقات کیلئے آواز بلند کرتی تھی کافی عرصہ ہوا اس نے اپنایہ رول ترک کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہورمیں اپناتعارف کروانے کیلئے بلاول کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑرہاہے فی الحال تو بلاول کی دوڑ بھی محلات تک محدود ہے انہوں نے ابھی تک لاہور کی کسی کچی آبادی میں قدم رنجہ نہیں فرمایا اگر انکے اتالیق انہیں اندرون شہر کی کچی بستیون یا ثمینہ خالد گھر کی اپنے دیہی علاقے میں لے جاتی تب پتہ چلتا کہ لوگ کس حال میں ہیں اور وہ کیاچاہتے ہیں۔بلاول کوروز ڈرایا جاتا ہے کہ ان کا حشر بھی ماں جیسا ہوگا اس لئے محلات سے نکلنا نہیں ہے بھئی اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے اقتدار کو مگرمچھوں کے جبڑے سے چھیننا ہے تو رسک تو لینا پڑے گا جان کا صدقہ بھی دینا پڑے گا ورنہ لاہور میں ان کا محل بہت بڑا ہے وہاں سے باہر نہ نکلیں تو رسک کم ہوگا یہ جو ن لیگی کراچی میں آئے ہیں اس کا بھی ایک مقصد بلاول کو پیغام دینا ہے کہ بیٹا اپنی حدود رہو ورنہ ہم بھی تمہارے علاقے میں آکر زقند ڈال دیں گے گویا بلاول کی موجودگی تینوں فریقین مقتدرہ حکومت اور ن لیگ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی پیپلزپارٹی کے پرانے جیالے اب بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ بلاول ماں کی طرح دمادم مست قلندر کہہ کر کود پڑے گا اور ضیائی اسٹیٹس کوکے تمام نمائندوں کو چیلنج کرے گا لیکن قمرزمان کائرہ اورچوہدری منظور اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہیں ابتک جو کچھ ہوا ہے وہ راولپنڈی میں ہوا ہے تخت لاہور نے اپنے ہاں کسی بڑے المیے کوہونے نہیں دیا ورنہ یہ داغ کئی برساتوں کے بعد بھی نہیں دھل سکے گا۔عورت مارچ کو لیکر ایک دلچسپ صورتحال پیداہوئی ہے ایک طرف مولانا فضل الرحمن نے اسکی عملی مخالفت کااعلان کیاہے تو دوسری جانب مولانا عبدالعزیز نے جامعہ حفصہ کی طالبات کے ذریعے اسلام آبادمیں اس پر حملے کی دھمکی دہی ہے ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی بھی کہاں پیچھے رہے گی وہ بھی کوئی نہ کوئی حملہ ضرور کرے گی۔لال ٹوپی والے زید حامد نے تو کلاشنکوف لہرا کر الزام لگایا ہے کہ یہ بھارتی ایجنڈا کاحصہ ہے کافی عرصہ پہلے جب ماروی سرمد ایک پروگرام میں کہہ رہی تھی کہ آپ تو کشمیری بچوں کی بات کرتے ہیں بلوچستان کے سربریدہ بچوں کی بات کیوں نہیں کرتے تو اسی دن سے ماروی معتوب ہے اسکے اورگناہ بھی ہونگے لیکن یہ گناہ ناقابل معافی ہے یہ جو اسکے خلاف بدکلامی اوردشنام طرازی ہے یہ بہت کم ہے ورنہ بے شمار لال ٹوپی والے اسے ننگ دین اور ننگ وطن سمجھتے ہیں۔بظاہر جو شوریامحشر میں ہے یہ گردشی مدار کیلئے خوشی کامقام ہے کیونکہ قوم مصروف ہوگئی ہے نہ مہنگائی کا رونا نہ کرونا وائرس کا ڈر بس ایک ماروی سرمد ان ساری بلاؤں پر بھاری پڑگئی ہے گوکہ جیوٹی وی نے خلیل الرحمن قمر کاایک کنٹریکٹ کینسل کیا ہے ضیاء الحق کے ہزاروں پیروکار اپنے مرشد کے سچے پیروکار پرہزاروں کنٹریکٹ نچھاور کردیں گے بس زراسی صبر کی ضرورت ہے۔
طواف کعبہ کرلیا اچھا کیا تم نے سلام
بس زرا ایک رقص مستانہ دلوں کے اردگرد
”عین سلام“

اپنا تبصرہ بھیجیں