پاکستان یقیناً ذمہ دارایٹمی طاقت ہے!

تحریر:سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری
عرصہ دراز سے جنوبی ایشیاءکے حوالے سے امریکہ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور کئی مقامات پر غلط فیصلوں کی وجہ سے بھی بہت سے مسائل جنم لے چکے ہیں اور اس کا تسلسل اب تک جاری ہے۔ اگر خطہ عدم استحکام کا شکار ہے تو اس میں امریکہ کی ناقص پالیسیوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ڈیمو کریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی میں خطاب میں روس اور چین کا حوالہ دیتے پاکستان کو لپیٹ میں لیتے ہوئے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لگتا ہے پاکستان کی چین اور روس سے بڑھتی ہوئی دوستی اصل مسئلہ ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے کسی اور کا غصہ پاکستان پر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ "پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔” جب آپ چین اور روس کی بات کرنا چاہیں اور پاکستان کو لپیٹ میں لیں تو پھر سمجھ آتی ہے کہ پاکستان بہانہ ہے، نشانہ کوئی اور ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستان سے متعلق حقائق کے برعکس اور گمراہ کن بیان جس میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان ایک خطرناک ترین ملک ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ اور غیر محفوظ ہے“ کوپاکستانی قوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔ پاکستانی قوم امریکی صدر کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کو یکسر مسترد کرتی ہے اور ساری دنیا کو یہ باور کرا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان یقینی طور پر ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس میں کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے ۔ پاکستان دو ارب مسلمانوں کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے اور ہمیشہ سے دنیا میں امن کا خواہش مند رہا ہے ۔ایٹمی طاقت حاصل کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے ۔یہ بات قابل فخر ہے کہ پاکستان کے پاس کسی اتحاد کے بغیر جوہری طاقت ہے ۔پاکستان نے ایٹمی تجربات صرف اور صرف خطے میں بھارتی جارحیت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کو لگام دینے اور اس کے ایٹمی دھماکے کرنے کے جواب میں اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے کئے تھے اور اس ایٹمی طاقت سے دنیا کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام انتہائی محفوظ تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے ۔
امریکہ سمیت ساری دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کون کرتا ہے اور کس سطح پر رہتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اس لیے امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا اور ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ سیاسی و عسکری اکابرین نے امریکی صدر کے اس بیان کی مذمّت کرتے ہوئے بہترین انداز میں پاکستان کا نقطہ نظر بیان کیا بعد میں آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ایٹمی کمانڈ اور کنٹرول سٹرکچر پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی صورتحال کاجائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ذمہ دار ملک ہے اور پاکستان نے اپنی ایٹمی سکیورٹی رجیم مضبوط بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے ہیں۔ملک کے سٹریٹجک اثاثوں کے سیکیورٹی انتظامات بھرپور ہیں۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک فوج ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے اور ملک کے دفاع کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی اور باہمی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس وقت جب دنیامختلف مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے تو ایسے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی حقیقت کو پہنچاننے کے لئے خالص اور پائیدار کوششیں نہایت ناگزیر ہیں نہ کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر حقیقی بیانات دیئے جائیں ۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کسی بھی صورت پاکستان اور امریکہ تعلقات کو مضبوط نہیں بناسکتے۔انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی پاکستان کی سالمیت کے رکھوالوں پاک افواج کی صلاحیتوں ، وطن سے محبت کرنے والی قوم اور اس کے ذمہ دارانہ کردار پر شک نہیں ہونا چاہئے اور کسی کو بھی اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہئے ۔
پاکستان ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود مختلف معاملات میں نہایت ذمہ داری، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سب سے زیادہ تکلیف ہے اور وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دنیا بھر میں جھوٹی اور من گھڑت مہم چلانے میں مصروف رہتا ہے۔ امریکی صدر کے بیان اور پاکستان کے مضبوط اور جاندار موقف اور بھرپور جواب کے بعد امریکہ کی طرف سے اب امریکی صدر کے بیان کو غلط فہمی قرار دیا جا رہا ہے۔ جو بائیڈن کے بیان نے دنیا بھر میں غلط فہمی پیدا کر دی اور بھارت اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی حکام کے کامیاب دورہ امریکا کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے بیان کو محض ایک غلط فہمی ہی کہا جا سکتا ہے اور اس بات کی تصدیق ڈیموکریٹک سینیٹر کریس وین ہولن نے کی ہے۔ کریس وین کہتے ہیں کہ ”پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے“۔ اس بیانیے سے یہ بات ثابت ہے کہ صدر جو بائیڈن کی پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق غلط فہمی کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مسئلے سے دونوں ممالک کے تعلقات پرمنفی اثر آ سکتا ہے اور شاید اب یہ غلط فہمی دور بھی ہو گئی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنے نیوکلیئر پروگرام کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ حفاظت یقینی بنا رہا ہے اور دنیا اس سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام کسی بھی نقص سے پاک اور اعلیٰ بین الاقوامی معیار کا ہے جو کہ انتہائی محفوظ تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان اہم ممالک میں شامل ہے جو دنیا کی بہترین افواج کے ساتھ ساتھ اپنے نیوکلیئر پروگرام کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مکمل حفاظت اور استعمال کیلئے قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔”
اب اس بیان کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے کسی غلط فہمی یا غلط معلومات پر اکتفا کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان جیسے ذمہ دار ملک کے بارے نہایت غیر ذمہ داری سے گفتگو کرتے ہوئے ایک غیر ضروری بحث کا آغاز کیا۔ اس بحث کا جلد خاتمہ ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ ضرور دیکھنا ہو گا کہ خطے میں پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور پاکستان نے بحیثیت قوم امن کی خاطر کتنی قربانیاں دی ہیں ۔ اگر پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے تو اس کا نقصان صرف پاکستان میں رہنے والوں کو نہیں ہو گا بلکہ اس کے اثرات تمام دنیا تک پہنچیں گے اور شاید پوری دنیا کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑجائے ۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو سامنے رکھنا چاہئے اور یہ طے کر چاہئے کہ معاملات کو کیسے آگے بڑھانا ہے کیونکہ روس اور یوکرین کی جنگ بارے ماہرین کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ یوکرین کو مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے، جنگی سامان فراہم کیا جا رہا ہے گوکہ یہ سب کچھ یورپ کو محفوظ بنانے کے نام پر ہو رہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکہ کسی صورت روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو برداشت نہیں کر سکتا اور روس کو روکنے کے لیے وہ ہر حد تک جائے گا اور اس کشمکش میں ساری دنیا کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ روس یوکرین جنگ سے خطے میں بھی عدم توازن کی صورتحال پیدا ہو گی خطے کے دیگر ممالک کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس جنگ کی وجہ سے اب تک جو مسائل سامنے آئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن عالمی طاقتیں دنیا کے امن کی بجائے اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اختلافات بھی اچھی خبر نہیں۔ تیل کی پیداوار سے متعلق تنازع اور امریکی دھمکی پر سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان کے چچازاد بھائی اور شہزادے سعود الشعلان نے کہا ہے کہ اگر کسی نے چیلنج کیا تو ہم سب جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے پر سعودی عرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودیہ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سعودیہ نے مغرب کو دھمکیوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں جہاد کا اعلان کرتے ہوئے سب پر واضح کر دیا ہے۔ اس معاملے میں بھی پاکستان نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔اس سارے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سارے مسائل امریکہ کی نامناسب حکمت عملی کی وجہ سے ہی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی اور باہمی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس وقت جب دنیامختلف مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے تو ایسے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی حقیقت کو پہنچاننے کے لئے خالص اور پائیدار کوششیں نہایت ناگزیر ہیں نہ کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر حقیقی بیانات دیئے جائیں ۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کسی بھی صورت پاکستان اور امریکہ تعلقات کو مضبوط نہیں بناسکتے۔