کٹھ پتلیوں کاتماشہ

تحریر،انور ساجدی
کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا صدرڈونلڈٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب اوراسکے حکمران کیا بیچتے ہیں ہمارے بغیر 14دن بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتییہ بات امریکی صدرنے اس وقت کہی تھی جب آتشین برانڈ ولی عہدمحمدبن سلمان نے اپنے والد کے کزن ولید بن طلال سمیت شاہی خاندان کے درجنوں ارب پتی اراکین کو گرفتار کرکے ریاض کے ”رٹنرکارلٹن“ ہوٹل میں نظر بند کردیا تھا چند دنوں کے اندر انکی ساری دولت چھین کر انہیں چھوڑدیا گیا تھا اگرچہ میڈیا یہ اندازہ نہیں لگاسکا کہ زبردستی چھینی گئی دولت کتنی تھی تاہم گماں یہی ہے کہ یہ تین سے پانچ سوارب ڈالر تھی اتنی رقم کے سودے صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران طے ہوئے تھے جبکہ اربوں ڈالر کے تحائف بھی اپنے مربی اورمحسن کی نذرکئے گئے تھے طویل عرصہ سے سعودی عرب کاشاہی خاندان امریکی انٹیلی جنس کے رحم وکرم پر ہے ورنہ اب تک کئی بارتختے الٹ چکے ہوتے جب شاہ سلمان نے اپنے ہی بھتیجے کو معزول کرکے اپنے بیٹے شہزادہ محمد کو ولی عہد مقرر کیا تھا تو شاہی خاندان کے اندرغصہ اور بغاوت آثار پیداہوگئے تھے لیکن اس بغاوت کو منظرعام پر نہیں آنے دیا گیا اور اسے اندر ہی اندر کچل دیا گیا لیکن تب سے وہاں پرحالات ٹھیک نہیں ہیں ولی عہد نے سعودی عرب کے بند سماج کو کھولنے اسے مغربی سانچے میں ڈھالنے خواتین کو کچھ آزادیاں دینے یہاں تک کہ سینما اور نائٹ کلب اور کسینو کھولنے کے جو اقدامات کئے ہیں اس سے ملک کی قدامت پسند سوسائٹی اندر سے کھول رہی ہے ایک لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اسکے علاوہ ولی عہد اسرائیل سے جوتعلقات استوار کررہے ہیں اور قبلہ اول کو تاابدصیہونی طاقت کے کنٹرول میں دینے کی جو پالیسی اپنارہے ہیں اس سے بھی لوگ خفاہیں خاص طور پرتقریباً نصف آبادی جواہل تشیع پر مشتمل ہے اضطراب کی شکار ہے۔
حال ہی میں کروناوائرس کی وجہ سے خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کو مکمل بند کرنے کا جو اقدام اٹھایا گیا وہ بھی ایک غیرمعمولی کارروائی ہے جسے علماء نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ جنگ عظیم اول اور 1980ء کی دہائی میں جب ایک گروہ نے خانہ کعبہ کے اندر گھس کر پناہ لی تھی صرف ان دو موقع پر عالم اسلام کے یہ مقدس ترین مقامات بند کئے گئے تھے سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے قبلہ اول کو چھوڑ کر فلسطینی عوام کوتنہا کرکے جو اسرائیل نوازپالیسی اپنائی ہے آخر کار اسکے تباہ کن نتائج برآمد ہونگے کیونکہ یہودیوں کادعویٰ صرف قبلہ اول پر نہیں ہے بلکہ مکہ مدینہ پر بھی اپنا حق جتاتے ہیں۔یہودی ربی روز کہتے ہیں کہ یہ سارے مقامات بالآخر دوبارہ انکے حوالے ہونگے وہ یثرب اور خیبر کو آج تک نہیں بھولے سعودی عرب جس سے امت کی رہنمائی کی توقع ہے اگروہ اپنی ذمہ داریاں ترک کرکے امریکہ اور صیہونی ریاست کا دم چھلہ بن جائے تو کیا باقی رہ جاتاہے؟
سعودی حکمرانوں نے اسلامی کانفرنس کو بھی ناکارہ تنظیم میں بدل دیا ہے اور یہ جدہ کے اپنے ہیڈکوارٹرزمیں بے سدھ پڑی ہے اور مسلمانوں کے تمام معاملات سے بیگانہ بن کر رہ گئی ہے اگریہی حالات رہے تو مستقبل قریب میں سعودی عرب اسرائیل کوتسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرے گا حالانکہ اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان درپردہ تعلقات قائم ہیں اور وفود کا تبادلہ بھی جاری ہے گوکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیۂ کو وہ فلسطینی ریاست قائم ہونے دے اور مشرقی یروشلم پرقبضہ ختم کرکے اسے فلسطینی ریاست کادارالحکومت تسلیم کرے یہی مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا دائمی حل ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔
صدرٹرمپ نے یہ بانگ دہل امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرکے یروشلم پراسرائیلی قبضہ کو جائز قراردیدیا جبکہ اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم نیتن یاہو ساری فلسطینی زمین ہڑپ کرچکے ہیں۔فسلطینی اتھارٹی اور حماس کے پاس صرف جریکو وار غزہ کی پٹی رہ گئی ہے خدشہ ہے کہ اگر سعودی عرب نے اسرائیل کوتسلیم کرلیا تو مسلم ممالک کے درمیان اسے تسلیم کرنے کی دوڑ لگ جائیگی سارے حکمران فلسطین اسکے عوام اور قبلہ اول کوبھول جائیں گے یہ ایسا تباہ کن اقدام ہوگا کہ اسکے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایک بارپھر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے بڑی خونریزی ہوگی فلسطین تاراج ہوجائیگا لبنان کی اینٹ سے اینٹ بج جائیگی شام اور اردن بھی نہیں بچ پائیں گے مصر میں نئی بغاوت جنم لے گی جس کے نتیجے میں سعودی حکمران بھی چین اور سکون سے نہیں رہ پائیں گے کیونکہ یمن کے بعد اسکے اندر بھی بغاوت جنم لے گی اسرائیل کواس وقت اپنی طاقت کا زعم ہے لیکن جب جنگ سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی تو اسرائیل کا متاثر ہونا ناگزیر ہے اس پر لبنان،شام اور فلسطین سے بہ یک وقت حملے ہونگے حماس حزب اللہ شام اور یمن مجبور ہونگے کہ وہ ایران کی امداد حاصل کریں جس سے ایران کا اثرورسوخ مزید بڑھ جائیگا اگرامریکہ نے خلیج پر حملہ کیا تو جنگ مزید پھیل جائے گی جس کی وجہ سے علاقہ کے ممالک اور امریکی اقتصادی مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا اگرچہ ٹرمپ اس وقت سارے خطے کے وسائل کو ہڑپ کررہے ہیں لیکن ان کاجانا بہت ضروری ہے۔
ہوسکتا ہے کہ انکی جگہ جو آئندہ امریکی صدر آئے انکی پالیسیاں عالمی امن کیلئے ممدومعاون ثابت ہوں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت نے شاہی خاندان کے3اہم اراکین کو حراست میں لے لیا ہے جن شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا ہے ان میں شاہ سلمان کے سوتیلے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز،سابق ولی عہد محمد بن نائف اور انکے بھائی شہزادہ نواف بن نائف شامل ہیں۔شاہی خاندان نے ان گرفتاریوں کے بارے میں ابھی تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی گرفتاریوں کی وجوہات بیان کی ہیں تاہم باور کیاجاتا ہے کہ یہ گرفتاریاں ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر عمل میں آئی ہیں خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ شاہی خاندان کے اندر بغاوت کا خطرہ تھا اس لئے ولی عہد نے یہ قدم اٹھایا واضح رہے کہ 2017ء میں ولی عہدکے حکم پر شاہی خاندان کے درجنوں اراکین وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا تھا بی بی سی کے مطابق حالیہ گرفتاریاں جمعہ کی صبح کی گئیں۔2017ء میں محمدبن سلمان نے اس وقت کے وزیرداخلہ محمدبن نائف کو برطرف کرکے نظربند کردیا تھا جمعہ کو علی الصبح ماسک پہنے شاہی گارڈ نے شاہی خاندان کے اراکین کو حراست میں لے لیا جس کے بعد انہیں نامعلوم معلوم پر منتقل کردیا گیا۔گرفتاری کیلئے آنے والے گارڈنے سیاہ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا ریاض کے شاہی محل میں کئی بار ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے۔سعودی عرب پرنظر رکھنے والے عالمی مبصرین کاکہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریاں غیرمعمولی واقعہ ہے جس کی تفصیلات پوشیدہ رکھی جارہی ہیں تاہم بالآخر پتہ چل جائیگا کہ یہ گرفتاریاں سیاسی اختلاف کا نتیجہ ہے یامعاملہ اس سے بھی سنگین ہے۔لاہور سے خبر آئی ہے کہ اگرصوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان بروقت مداخلت نہ کرتے تو نامور کامیڈین امان اللہ خان کی لاش بے گوروکفن پڑی رہتی کیونکہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی پیراگون کی انتظامیہ نے مرحوم کی تدفین کی اجازت دینے سے انکارکردیا تھا ان کا کہنا تھا کہ امان اللہ ایک مراثی تھا اور شرفاء کے قبرستان میں مراثیوں کیلئے جگہ نہیں ہے مرحوم کے ورثا نے فیاض الحسن چوہان سے رابطہ کیا اور وہ قبرستان پہنچے جہاں کافی بحث کے بعد وزیرکی موجودگی میں زبردستی انکی قبر کھودی گئی اور دفنایا گیا یہ ہے آج کا پاکستانی سماج جہاں معاشرے کا ایک بڑاحصہ یہ کہہ کر خواتین کے مارچ پر معترض ہے کہ اس سے انکی روایات اور کلچر کو خطرہ ہے بھلا یہ کونسا کلچر ہے کہ ایک فنکار کو مراثی اورحقیر کہہ کر تدفین سے انکار کیاجائے۔اگرچہ یہ تومعلوم نہیں کہ امان اللہ مراثی تھا کہ نہیں البتہ انہوں نے اسٹیج ٹی وی اور فلموں میں جومزاحیہ کردار اداکئے اسکی وجہ سے معاشرے کا ایک بڑاحصہ اسے مراثی مسخرہ اور مزاحیہ کردار سمجھتا تھا حالانکہ لاہور میں اسکے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے شاباش ہے فیاض الحسن چوہان کو جنہوں نے غالباً اپنی زندگی کا بہت اچھا کام کیا ہے حالانکہ مخالفین انہیں راجپوت ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں اور انہیں انکے دبنگ انداز کلام کی وجہ سے مراثی سمجھتے ہیں انہوں نے سیاست میں قدم کیا رکھا کہ ذاتی توقیر عزت اور مقام بڑھ گیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاست شہرت کمانے دولت بٹورنے اور معاشرے کو زیردست لانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔اگرحساب کتاب رکھا جائے تو کئی مراثی سیاست میں آکر صاحب عزوشرف ہوئے اقتدار ملنے کے بعد تمام نسلی اورمعاشرتی عیوب چھپ جاتے ہیں حالانکہ پرانے زمانے میں پنجاب کے کلچر میں بھانڈ اس کا لازمی حصہ ہوتے تھے لیکن یہ شعبہ اب ختم ہوگیا ہے۔ٹیکنالوجی کی تبدیلی نے سارے بھانڈ اور مزاحیہ کردار ٹی وی چینلوں پرپہنچادیئے ہیں۔بے شمار سیاسی رہنما روز ان چینلوں پرایسی جگت بازی کرتے ہیں کہ اپنے وقت کے نامور بھانڈ بھانیر بھی شرماجائے۔
لیکن اقتدار کی طاقت انکی لونڈی ہے بے شک ان کی رال ٹپکتی ہو یا چوہدری شجاعت کی طرح کوئی بات سمجھ میں نہ آئے لیکن اقتدار کے پروانے آگے پیچھے ہوتے ہیں زندہ باد اور مردہ باد والے بھی موجود ہوتے ہیں۔پاکستان کے مزاحیہ اداکار رنگیلا بسترمرگ پر ایک انٹرویو میں کہہ رہے تھے بھائی یہاں پیسہ تو صرف سیاست میں ہے ہیروئن کے کاروبار سے بھی زیادہ پیسہ اس میں ہے۔
رنگیلا نے بھٹو کے دور میں ایک فلم انسان اورگدھا میں بھٹو کی نقل اتاری تھی جس پر مخالفین نے خوش ہوکر رنگیلا کو بے تحاشہ داددی تھی۔
بے چارے کو معلوم نہیں تھا کہ ہیروئن کا کاروبار بھی سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہے میراخیال ہے کہ بیشترسیاستدان صحافیوں کو بھی مراثی سمجھتے ہیں حالانکہ صحافی چاپلوسی اورخوشامد میں سیاستدانوں کامقابلہ نہیں کرسکتے یہ وہ مخلوق ہے کہ اپنے سے طاقتور عناصر کے آگے دوزانو ہوکر بک جاتاہے جبکہ کمزوروں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے یہ طبقہ ووٹ کرسی کی خاطر کیاکچھ نہیں کرتا لیکن پھر بھی باعث عزو شرف ہے غریب صحافی توچند روپے کا خرچہ لیتے ہیں جبکہ یہ طاقت کے عناصر کے ساتھ مل کر پورا ملک اور اس کا خزانہ چاٹ گئے ہیں اقتدار کے کھیل میں یہ دراصل کٹھ پتلیوں کا کردارادا کرتے ہیں لیکن مراثی دوسروں کو سمجھتے ہیں اسے کہتے ہیں دیدہ دلیری بلکہ سینہ زوری۔

اپنا تبصرہ بھیجیں