قومی جدوجہد سے خوفزدہ سرکار و سردار سمیت تمام بلوچ دشمن قوتیں ہمارے خلاف زہر اگل رہی ہیں، بی ایس او

کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک انقلابی تنظیم ہے جس کی جڑیں بلوچ عوام میں پیوست ہیں اور اپنی تمام عمر بی ایس او نے بلوچ عوام کی نمائندگی میں ہر اول دستے کا کردار نبھایا ہے۔ بی ایس او کے اسی انقلابی کردار کی وجہ ہے کے آغاز سے ہی سامراجی قبضہ گیر قوتیں اور مقامی استحصالی بالائی حکمران طبقات تنظیم سے خوفزدہ رہے ہیں۔ بلوچ وطن پر قبضہ و قومی محکومی کے خلاف شعور نے اپنا اظہار بی ایس او کی صورت میں کیا اور بلوچ نوجوانوں کی قربانیاں اسی تسلسل سے وطن کے دفاع میں جاری ہیں۔ تنظیم نے کبھی مصالحت کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ آج تک انقلابی کیڈر کی پیدائش کے صبر آزما عمل میں ملوث ہے۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ ہمارے اسلاف نے بلوچ سماج کا سائنسی انداز میں جائزہ لیا اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے ایک ایسا انقلابی پروگرام پیش کیا جس میں بیرونی یلغاروں سمیت اندرونی استحصالیوں کے ظلم و جبر کےلیے بھی کوئی گنجائش وجود نہیں رکھتی۔ اسی لیے بی ایس او بیرونی آقا سمیت اندرونی سہولت کاروں کےلیے بھی ہمیشہ سے تکلیف کا باعث رہی ہے۔ بی ایس او واحد انقلابی بلوچ قومی مادر علمی ادارہ ہے جس نے بلوچ قومی تحریک کے ہر فرنٹ ہر محاز کو باقاعدہ طورپر نہ صرف توانائی بخشی ہے بلکہ ان کی تشکیل و منظم کیے جانے کا سہرا بھی اسی عظیم انقلابی ادارے کو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک بی ایس او نے اپنی انقلابی اساس قائم رکھی ہے، اور فتح کے راستے پر مستقل مزاجی سے کاربند ہے۔ بی ایس او کا انقلابی کردار اس کے بڑے پن اور اس کی مخالفت کا باعث بنتی ہے۔ بیرونی یلغاری لشکر یا پھر مقامی سہولتکار سب نے متحد ہو کر اس عظیم انقلابی ادارے کو متنازعہ بنانے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور آج بھی اس عظیم ادارے کو بدنام کرنے اور بلوچ نوجوانوں کو اس سے بدظن کرنے میں ان استحصالی قوتوں کی کوششیں جاری و ساری ہیں۔ بی ایس او ایک طرف بلوچ قومی حق حاکمیت کے حصول کےلیے واضح پروگرام کے ساتھ میدان عمل میں مزاحمت کر رہی ہے تو وہیں پر بلوچ سماج کے اندر موجود بالائی طبقات کے استحصال، جبر، ظلم و زوراکی اور بیرونی استعمار کے سہولتکاروں کے خلاف ہر لمحہ لڑ رہی ہے۔ ایک طرف بیرونی یلغاری طاقت کے آلہ کار بلوچ وطن کی محکومیت سے انکاری ہیں تو دوسری طرف بلوچ قومی تحریک کے اندر سامراجی خوف کے شکار لوگ بھی طبقاتی جبر سے انکاری ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بی ایس او کے خلاف زہر اگلنے اور اسے متنازعہ کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر سب متفق نظر آرہے ہیں۔ بی ایس او کے خلاف اسی نفرت کی بنا پر جہاں بیرونی حاکم نے بی ایس او کو مسلسل اپنی دہشت و وحشت اور جبر سمیت تمام تر سفاکیوں کا نشانہ بنایا ہے تو وہیں پر اس بیرونی حاکم کے مقامی آلہ کاروں نے اس عظیم انقلابی ادارے کے پروگرام کو مسخ کرنے، اس کے انقلابی پروگرام کو بدنیتی سے چھپانے، گم کرنے اور اسے تقسیم کرکے اپنے زیرِ اثر رکھنے کی کاوشیں کی ہیں۔ اس وقت بی ایس او پر سب سے زیادہ اجارہ داری کا زور لگانے والے بھی وہ وطن فروش اور موقع پرست پارلیمانی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں بلوچ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ہمیشہ وطن واسیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اور سودے بازیوں کے ذریعے وطن فروشی کا مرتکب ٹھہرے ہیں۔ تاریخی طورپر بی ایس او ایک بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی انقلابی قوم دوست تنظیم رہی ہے اور آج بھی تنظیم کو انہی انقلابی نظریات، انقلابی ثقافت کے ساتھ بحال کیے جانے کےلیے کئی سپوتوں نے اپنی جوانیاں لگائی ہیں اور اس تناور درخت کو اپنے خون سے سیراب کیا ہے۔ بی ایس او کے انقلابی نظریات اور پروگرام کا خوف ہی ہے کہ آج سرکار و سردار سمیت تمام بلوچ دشمن قوتیں اس ادارے کے خلاف زہر اگل رہی ہیں، ان طاقتوں اور مسلط قوتوں کا خوفزدہ ہو کر اس ادارے پر قبضہ کرنے اور اس کے نام و نشان تک کو مٹانے کے شیطانی ارادے ہیں مگر بی ایس او بلوچ نوجوانوں کی یادداشت ہے اور کسی بھی زندہ مزاحمتی قوم کی یادداشت کو مٹانا نہ پہلے ان وطن فروشوں کے بس میں رہا ہے اور نہ ان کے سامراجی آقاﺅں کے بس میں کبھی ہوگا۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ ایک بار پھر ہم واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قومی محکومیت کے خلاف بی ایس او ہمیشہ کی طرح توانا جدوجہد کرتی رہے گی اور مقامی بالائی استحصالیوں اور بیرونی آقاﺅں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی سینہ سپر رہے گی۔ بی ایس او کا انقلابی جدوجہد قومی و طبقاتی جبر سے مکمل نجات کی جدوجہد ہے جس میں فیصلہ ک±ن آخری انصاف انقلاب ہی ہے۔ ایک قومی سیاسی و معاشی انقلاب ہی بلوچ لس مہلوک و بلوچ وطن کو اس بیرونی و اندرونی جبر اور ظلم و نا انصافی سے نجات دلا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں