میری گرفتاری کا کریڈٹ انٹیلی جنس اداروں کو جاتا ہے، ریاست عام معافی دے تو بڑی تعداد میں لوگ واپس آسکتے ہیں، گلزار امام

کوئٹہ (یو این اے) کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے کمانڈرگلزار امام عرف شنبے نے کہاہے کہ بلوچستان کے ساتھ وفاق نے ہمیشہ زیادتیاں کیں،سوائے ڈاکٹرمالک بلوچ نے دیگروزرائے اعلیٰ نے بلوچستان میں ترقیاتی کام نہیں کئے ،صوبے کے مختلف اقوام ناراض ، بلوچستان میں لاپتہ افراد ایک سنجیدہ مسئلہ ہے میری تجویز یہ ہے کہ جو بھی لاپتہ ہیں ان کا ٹرائل عدالت میں ہونی چاہےے اور ریاست کو بھی ماں کا کردارادا کرناچاہےے میری گرفتاری کا کریڈیٹ انٹیلی جنس اداروں کو جاتاہے اور میری گرفتاری میں بلوچ تنظیموں کاہاتھ تھا ریاست بلوچستان کے شہری کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے کیا۔کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کے کماندر گلزار شنبے نے کہا کہ میں آج محسوس کررہا ہوں کہ میں غلط تھا مجھے صحافی یا پولیٹیکل لیڈر بن کر بلوچستان کے لئے لڑنا چاہیے تھا افغانستان اور بلوچستان میں ایک زمانے میں اسلحے کا مارکیٹ لگتا تھا ہر طرح کی جدید اسلحہ مل جاتا تھا بلوچستان میں وفاق کی جانب سے زیادتیاں ہوئی ہیں بلوچستان میں کچھ ایسے وزرا ئے اعلیٰ رہے ہیں آپ وہاں ان کے علاقے جائیں آپ کو اچھی سڑک نہیں ملے گی مکران میں تعلیمی اور بنیادی سہولیات نظر آرہی ہیں بلوچستان کے دیگر علاقوں میں فقدان ہی نظر آئے گا ڈاکٹر مالک نے مکران میں تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بنائے ہیں آج آپ بیلہ سمیت دیگر علاقے دیکھیں کہ وہاں صحت،تعلیم ،پانی جیسی بنیادی سہولیات نہیں ہیں بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں اب تبدیلی لانا ہوگا کیونکہ دنیا کہاں تک پہنچ گئی ہے ہم اب تک وہی کے وہی کھڑے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسلح جنگ میں غیر ملکی امداد ہوئی ہے ہم جو سرحدی علاقوں میں منشیات پکڑ کر انہیں عالمی منڈیوں میں فروخت کر کے ہم کام چلاتے تھے بلوچستان میں اس وقت بھی مختلف قوموں کی ناراضگیاں ہیں ایک جنگ چل رہی ہے آج بلوچستان میں گوادر سٹی بننے جارہا ہے میں ایک بار پھر معافی مانگتا ہوں جن کے پیارے بم دھماکوں میں چلے گئے ہیں میں مانتا ہوں میرے آرڈر پر بلوچستان میں بم دھماکے ہوتے تھے بلوچستان کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ تعلیم کو توجہ دیں اور بلوچستان کی ترقی میں بھر پور کردارادا کریں میں چاہتا ہوں ریاست عام معافی کا اعلان کریں بہت بڑی تعداد میں لوگ بلوچستان میں اس وقت بھی لڑ رہے ہیں وہ بھی واپس آسکتے ہیں جس سے بلوچستان کا ماحول سازگار ہوسکتا ہے بلوچستان میں وفاق کی جانب سے بھی زیادتیاں ہوئی ہیں جب جنگ کی حالت ہوتی ہے وہاں لوگ بھی لاپتہ ہوتے ہیں بلوچستان میں لاپتہ افراد ایک سنجیدہ مسئلہ ہے میری تجویز یہ ہے کہ جو بھی لاپتہ ہیں ان کا ٹرائل عدالت میں ہونی چاہےے اور ریاست کو بھی ماں کا کردارادا کرناچاہےے میں بلوچستان میں 2009ءسے مسلح مزاحمت کا حصہ رہاہوں میری گرفتاری کا کریڈیٹ انٹیلی جنس اداروں کو جاتاہے اور میری گرفتاری میں بلوچ تنظیموں کاہاتھ تھا ریاست بلوچستان کے شہری کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیں ۔بلوچستان کے نو گو ایریاز سے ہم تنظیم کو آپریٹ کرتے تھے جب میں بیمار ہواتو افغانستان چلاگیا اس وقت اشرف غنی کی حکومت تھی تووہاں سے ہم تنظیم کو آپریٹ کررہے تھے پھر افغان پاسپورٹ پر 2017ءمیں علاج کی غرض سے بھارت چلا گیا جب طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد میں بھارت میں صرف تاج محل دیکھنے گیا ہوں اس کے علاوہ کسی سے نہیں ملا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں