ہمارا امدادی پیکج ہی پاکستان کے جی ڈی پی کے برابر ہے: بھارت

نیو دہلی: کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے بھارت کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرنے کی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش پر نئی دہلی نے سخت اور تلخ جواب دیا ہے۔بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش کو انتہائی طنزیہ انداز میں ٹھکراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ خود قرض میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ بھارت نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی معیشت کی بحالی کے لیے جس امدادی پیکج اعلان کیا ہے وہ پاکستان کی سالانہ مجموعی پیداوار (جی ڈ ی پی) کے برابر ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے بحران کے دوران غربیوں میں پیسے تقسیم کرنے سے متعلق اپنے کامیاب پروگرام اور تجربے کو بھارتی حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کی پیش کی تھی۔میڈیا کی ان خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہ، 34 فیصد بھارتی شہری آج اس صورتحال میں ہیں کہ اگر ان کی فوری مالی مدد نہیں کی گئی تو ان کی زندگی مشکل ہوجائے گی، عمران خان نے ٹویٹ کر کے بھارت کی مدد کرنے اور اپنے کامیاب تجربے کو شیئر کرنے کی بات کہی تھی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے پاکستان میں غریبوں کے اکاؤنٹ میں نو ہفتوں کے دوران تقریبا ً120 ارب روپے ٹرانسفر کیے ہیں اور کیش ٹرانسفر پروگرام میں شفافیت اور اس کی کامیابی کی عالمی برادری نے بھی تعریف کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے کئی ٹویٹ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مالی مدد کے بجائے طریقہ کار اور اپنے کیش ٹرانسفر پروگرام کے تجربات شیئر کرنے کی بات کر رہے تھے کہ ایسے بحران میں کس طرح موثر انداز میں عوام تک مدد پہنچائی جا سکتی ہے۔لیکن بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان خود قرض میں ڈوبا ملک ہے اور وہ بھارت کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ ”ہم سب کو ان کے قرضے کی مشکلات ا ور ان پر اس کے لیے کتنا دباؤ ہے، اچھی طرح معلوم ہے۔ ان کے لیے یہ یاد رکھنا بہتر ہوگا کہ بھارت نے معیشت کی بحالی کے لیے جو امدادی پیکج اعلان کیا ہے وہ ان کی مجموعی سالانہ پیداوار کے برابر ہے۔بھارت میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اس سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور بے روزگاری کی سطح اپنے عروج پر ہے۔ ہر جانب سے نکتہ چینیوں کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ معیشت کی بحالی کے لیے 20 لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔بھارتی وزارت خارجہ نے عمران خان کے بیان کے جواب میں اسی پیکج کا ذکر کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا کی پریس کانفرنس سے تھوڑا پہلے ہی عمران خان کی ٹویٹ پوسٹ ہوئی تھیں اور اس بارے میں ایک صحافی نے جب سوال پوچھا تو بھارتی ترجمان ایک پرچے پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ پڑھ کر جواب دے رہے تھے۔ گویا پہلے سے اس کی تیاری تھی۔ ان کا کہنا تھا، ”پاکستان اپنے عوام کو پیسہ دینے کے بجائے بیرونی ممالک کے اکاؤنٹ میں دوسروں کو پیسہ ٹرانسفر کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ عمران خان کو نئے مشیروں اور بہتر معلومات کی ضرورت ہے۔عمران خان نے کیش ٹرانسفر سے متعلق اپنی اسکیم کے تجربات شیئر کرنے کی بات کی تھی اور بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسی طرح کے کیش ٹرانسفر کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی مصیبت کی اس گھڑی میں مزدروں اور غریبوں کو ماہانہ ساڑھے سات ہزار روپے کیش دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہے جسے حکومت تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے۔عمران خان کی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے بحران کے دوران نو ہفتوں میں ایک کروڑ افراد کو ایک سو بیس ارب روپے منتقل کیے ہیں۔ ان کی یہ اسکیم کافی کامیاب رہی ہے اور شفافیت کے لیے اس کی تعریف بھی ہوئی ہے۔خیال رہے کہ بھارت میں سخت گیر ہندو نظریات کی حامل جماعت بی جے پی اور نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ چند روز قبل ہی بھارت نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو افسران پر جاسوسی کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں