خدارا! کیچ کو بچائیں

منّان صمد بلوچ

سانحہِ ڈھنک کے رُونما ہونے کے بعد ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف ایک منظم عوامی مزاحمتی تحریک اُمڈ آیا جو تاحال جاری ہے- قوم ابھی بھی سوگ میں ڈوبی ہوئی ہے- عوام نوحہ خوانی کے ساتھ ساتھ ماتم بھی کررہی ہے- ملک ناز کی قبر کی مٹھی ابھی بھی گیلی ہے- برمش ہنوز انصاف کے خواہاں ہے- ڈھنک واقعے کی مد میں مظاہرین مظاہروں میں بھی مگن ہیں- لیکن اچانک سے قوم کے اُوپر ایک اور لاوا پھوٹ پڑا-

گزشتہ رات کیچ کے علاقے دازن تمپ میں ڈکیتی کے سلسلے میں کلثوم سعید نامی خاتون کی مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے ان کا گلہ کاٹ کر قتل کردیا جو صوبے کے عوام کی حالیہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے- لیکن کوئی تو ہے جس کی توسط سے ڈاکوؤں کی گینگ بلوچ سماج کی ننگ و ناموس کی اقدار کو بلاخوف روند رہی ہے- ہماری ماوؤں اور بہنوں کو ان کے گھروں کے اندر قتل کررہی ہے- کھلم کھلا عوامی احتجاجی سلسلے کو للکار رہی ہے-

بلاشبہ پولیس کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے- نہیں بلکہ پولیس محکمہ کو جان بوجھ کر مفلوج کردی گئی ہے- ڈاکوؤں کو دندناتے پھرنے کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے- سوچھی سمجھی سازش کے تحت کیچ کے حالات کو خراب کیا جارہا ہے- دانستہ طور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا جارہا ہے- عوام کو منتشر کرنے کی بھونڈی کوششیں کی جارہی ہیں- لیکن کیچ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا ذمہ دار کون ہے؟

محترمہ مادرِ وطن ملک ناز!

آپ کی ایک اور بلوچ بہن نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزاحمت کی اور ڈاکوؤں کی چھری کی زد میں آکر شہید ہوگئی- لیکن عوام کیا کرسکتی ہے- ہم کیا انہیں پھانسی دے سکتے ہیں؟ بلکل نہیں- یہاں گرفتار کرنے کے لیے پولیس محکمہ موجود ہے- عبرتناک سزا دینے کیلئے عدالتیں موجود ہیں- ڈاکوؤں کی سرپرستوں پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے سیاسی پارٹیاں موجود ہیں- ہم محض آپ کے حق میں آواز بلند کرسکتے ہیں- ریلیاں نکال سکتے ہیں- مزاحمتی تحریک چلا سکتے ہیں- ہم ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور انصاف کی فراہمی کیلئے ہر ممکن جتن کرسکتے ہیں- لیکن اگر پھانسی دینے کا اختیار عوام کے پاس ہوتا تو ملک ناز ہم کب کے آپکے قاتلوں کو پھانسی دے چکے ہوتے-

لیکن شرم کا مقام ہے کہ اس نامساحد حالات میں سیاسی پارٹیاں اپنی مفاد کو ملحوظ میں رکھتے ہوئے دوغلی سیاست پر تُلی ہوئی ہیں- آل پارٹیز کیچ کا اجلاس سردخانے میں کیوں؟ سیاسی پریس کانفرنسیں کھوکھلا پن کا شکار کیوں؟ ولولہ انگیز سیاسی تقریریں بےاثر کیوں؟ ایک طرف کیچ سیاسی جماعتوں کا گڑھ اور دوسری طرف کیچ میں ڈاکوؤں کی بھرمار، ہنسوں یا چیخوں؟ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ بااثر ڈکیتی گینگ عوام کی دسترس سے باہر ہے- کیچ کو صرف سیاسی جماعتیں بچاسکتی ہیں- خدارا سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر ڈکیتی اور قتل و غارت کے وارداتوں سے نمٹنے کیلئے ایک مضبوط و مربوط مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے اور کیچ سے ڈاکوؤں کا صفایا کیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکے-

اپنا تبصرہ بھیجیں