صوبہ سندھ کا خوش آئندہ فیصلہ

اداریہ
سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگلے روز قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کڑی تنقید کی تھے اور کہاتھا کہ چوبیس گھنٹے غریب عوام کی بات کرنے والی وفاقی(پی ٹی آئی کی) حکومت نے کورونا کی روک تھام، زراعت اور کسانوں کو ٹڈی دل کے نقصانات سے بچانے کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی۔ایک جہاز سکھر میں کھڑا ہے جس کا پائلٹ ہی نہیں۔سرکاری ملازمین کی زندگی مہنگائی نے اجیرن کر رکھی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے میں وفاق بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔آٹا، چینی اور دیگر اشیائے خوردنی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اضافہ نہ کرکے وفاق نے انہیں مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔گزشتہ روز سندھ میں پی پی پی کی حکومت نے رواں مالی سال کا بجٹ کرتے ہوئے اپنے قائد کی تقریر کو سامنے رکھا اور صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ ایک سے 16تک دس فی صد اور گریڈ17سے 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافہ کر دیا ہے (لیکن اس کا ذکر وزیر اعلیٰ کی لکھی ہوئی تقریر میں موجود نہیں)۔کورونا کے پیش نظر سماجی بہبود کے لئے مختص رقم ایک ارب 80کروڑ روپے سے بڑھا کر 27ارب10کروڑ کر دی گئی ہے۔ زراعت کے فنڈز میں بھی 40فیصد اضافہ خوش آئند ہے۔ ابھی کورونا اپنی انتہاء تک نہیں پہنچا مریضوں کی تعداد جولائی کے آخر تک 12لاکھ تک ہونے کا خدشہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ظاہر کیا ہے۔اسے دیکھتے ہوئے صوبہ سندھ کی حکومت نے بجٹ میں پیشگی اضافہ کر لیا ہے تاکہ ضرورت کے وقت کوئی قانونی الجھن نہ پیدا ہو۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اٹھارہویں ترمیم میں کسی تبدیلی کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیانات(”18ویں ترمیم جلد بازی میں کی گئی ہے اس میں غلطیاں ہیں، ٹھیک کرنا ہوگا“) کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا:”اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہیں،سمجھوتہ نہیں کریں گے“۔
وزیر اعظم عمران خان پارلیمانی نظام کے تحت اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کے باوجود بوجوہ اس نظام کے حامی نظر نہیں آتے۔انہیں اس نظام سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ہر شخص وزیر بننا چاہتا ہے۔اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اگر کسی کو وزیر نہ بنایا جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیتا ہے۔شائد وہ سمجھتے ہیں کہ آٹا، چینی اور پیٹرول جیسے بحرانوں کے پیچھے یہی خرابی کارفرما ہے۔لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔وفاقی کابینہ میں 50 وزیر، مشیر اور معاونین کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ورنہ اتنی بڑی کابینہ میں وزیر بننے کے خواہشمند تما م افراد کی شمولیت ہو چکی ہے۔مقتدرہ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کے دعوؤں کی موجودگی میں یہ شکایت ویسے ہی معدوم ہو جاتی ہے۔انہوں نے امریکی صدر کو وائٹ ہاؤس کے بنکر میں رات گزارتے دیکھ لیا ہے۔ان کی مرضی کے خلاف وائٹ ہاؤس کے گارڈز کو غیر مسلح کر دیا گیا۔پارلیمنٹ سے ان کی لڑائی سے صاف نظر آتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک میں نافذ صدارت نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔پاکستان میں صدارتی نظام ہمیشہ کوئی جرنیل (بپھرے ہوئے عوام کو 90دن میں بیرکوں میں واپس چلے جانے کا جھوٹا دلاسا دے کر) نافذ کرتا رہا ہے اور عوامی غیض و غضب کا مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم ہو کر اسی پارلیمانی نظام کو نہایت عاجزی سے سلام کرتے ہوئے رخصت ہو جاتا ہے۔صدارتی یا پارلیمانی نظام کو کوسنے کی بجائے وزیر اعظم عمران خان، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم سے وہ گر سیکھیں جوان دونوں کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ عوام میں ان کی مقبولیت امریکی صدر سے کئی گنا زیادہ ہے۔امریکی صدر خود تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔یعنی صرف صدر کہلاناکافی نہیں۔اس کے ساتھ اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنا بھی ضروری ہے۔انہیں یاد ہونا چاہیئے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کو عوام نے گولی نہیں ماری تھی نہ ہی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عوام نے پھانسی کی سزا دلوائی تھی۔
خرابی پارلیمانی نظام میں نہیں۔بلکہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ جو وزیر اعظم پاکستان کو عالمی برادری میں باوقار مقام دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے قتل کرادیا جاتا ہے پھانسی پر لٹکوا دیا جاتا ہے۔اصل خرابی تلاش کی جائے،اصل خرابی کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔جمہوری اقدار کی پامالی اصل خرابی ہے،عوامی رائے کے برعکس دھاندلی زدہ انتخابی نتائج پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔2013کے انتخابات کے بارے میں اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا یہ اعتراف کافی ہے کہ ہر حلقے میں 50ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں۔2018کے انتخابات کے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ نہ ہونے کے بارے میں انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے طویل وقفے کے لئے ہینگ ہونا سب سے بڑی واقعاتی شہادت ہے۔ دوسری واقعاتی شہادت یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف 64سینیٹر کھڑے ہوکر بلند آواز سے عدم اعتماد کا اعلان کرتے مگر چند منٹوں کے بعد 14ووٹ زبانی اعلان کے برعکس بکس سے برآمد ہوتے ہیں۔جب تک ہمارے سیاسی نظام میں پائی جانے والی اصل خرابی کو دور نہیں کیا جاتا، پارلیمانی اور صدارت نظام معتوب رہیں گے۔انتخابی دھاندلی کا راستہ روکا جائے۔یاد رہے دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے صدور اور وزیر اعظم کوتاریخ اٹھا کراپنے کوڑے دان پر پھینک دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں