بلوچستان کے طلباء احتجاج پر مجبور کیوں؟
تحریر۔ابوبکر دانش میروانی
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے جہاں سی پیک،سیندک،ریکوڈک، سوئی گیس، اور اوچ پاور پلانٹ جیسے بڑے بڑے منصوبے موجود ہیں جوکہ پاکستان کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے آج پاکستان کا نام ایک سرمایہ کار ملکوں میں شمار ہوتاہے، انہی کی وجہ سے امریکہ، روس، اور چین جیسے سپر پاور ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں، مگر اتنے وسائل کے باوجود یہاں کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں،کہیں پانی کا مسئلہ ہے، تو کہیں بجلی کا مسئلہ ہے جن علاقوں میں اگر بجلی ہے تو وہاں اٹھارہ سے بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتا ہے گیس اگر ہے تو کوئٹہ جیسے کچھ اضلاع میں ہے اس کے علاوہ باقی علاقوں میں اسکا تصورہی نہیں ہے،اس ٹیکنالوجی کے دور میں بلوچستان انٹرنیٹ جیسے سہولت سے محروم ہے،سوراب، قلات، تربت، آواران، میں تین سالوں سے انٹرنیٹ سروس نامعلوم وجوہات کے بنا کر بند کردیاگیاہے،اس کے علاوہ کچھ شہروں میں کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے سگنل تک نہیں انکو اپنے عزیزوں سے رابطہ کرنے کیلئے پہاڑوں پہ چڑھنا پڑتا ہے، ایک بات بلا مبالغہ کہ سکتاہوں کہ اگر کوئی کالم نگار بلوچستان کے مسائل کے اوپر لکھنا چاھے تو اس کے الفاظ ختم ہوجائینگے مگر بلوچستان کے مسائل کا شمار ختم نہیں ہوگا، وفاقی بجٹ ہو یاصوبائی وہاں میرے خیال سے صرف اور بلوچستان کے آبادی کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، اس کے مسائل اور زمینی حقائق کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے،
بہرحال میں آج کی تحریر میں بلوچستان کے اسٹوڈنس کے مسائل مختصر طور پر لکھ رہاہوں کہ بلوچستان کے طلباء وطالبات احتجاج کرنے پر مجبور کیوں ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ نوجوان نسل یعنی طالبعلموں کا ہوتا ہے۔ لفظ طالب علم یعنی ایسا شخص جو علم کا طالب ہو اور علم کا طالب شخص کوئی معمولی شخص نہیں ہوتا۔ جس طرح کسی بھی چیز کی طلب انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس چیز کو حاصل کرے اسی طرح علم کے طالب لوگ بھی علم کے معاملے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں اور وہ علم کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہیں اور ہر مصیبت کو برداشت کرتے ہیں اور اسی علم کی بناء پر طالب علموں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جنہیں پورا کر کے وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس ملک کے نوجوان اپنا مثبت کردار ادا نہ کریں۔ آج کی نوجوان نسل کل کی قوم ہے اور ہماری نوجوان نسل ہمارے طلباء ہیں۔ طالب علمی کا مرحلہ زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں انسان جو بوئے گا کل کو وہی کاٹے گا۔ تعلیم سے طالب علم بنتا ہے۔ تعلیم طالب علموں میں حقیقت کی تعمیر ہے۔ تعلیم طالب علموں کو حقائق اور اعداد و شمار کو سمجھنے اور مسائل کو موجودہ حالات میں کیسے حل کیا جا سکتا ہے جاننے میں مدد دیتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ طلباء کی اولین ذمہ داری ایمانداری سے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس تعلیم سے سیکھ کر اپنی کردار سازی بھی کرنی ہے اور صحیح اور غلط میں تضاد کرنا بھی سیکھنا ہے تا کہ کل کو بہترین فیصلے لئے جا سکیں۔ تعلیم کا مقصد نہ صرف اُسے حاصل کرنا ہے بلکہ اس علم کو آگے بھی پہنچانا ہے،مگر نا اہل حکمرانوں اور ایچ،ای،سی، کیتعلیم دشمن پالیسی بنانے والوں نے بلوچستان کے طلبہ کو احتجاج کرنے پر مجبور کیاہیجن طلباء کی ذمہ داری لوگوں کوسڑکوں سے کوڑا اٹھانے اور درخت لگانے کی ترغیب بھی دیناتھا، بلوچستان میں وہی طلباء اپنی حقوق کیلئے سڑکوں پہ احتجاج کررہے ہیں کبھی فیسوں کی کمی کیلئے، تو کبھی آن لائن کلاسز کے خلاف کبھی، کبھی اپنی لاپتہ عزیزوں کیلئے تو کبھی برمش جیسی پھولوں کو انصاف دلانے کیلئے، کبھی تعلیمی اداروں کی کھولنے کیلئے توکبھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی عملہ کے ساتھ تعاون کیلئے۔کبھی گیس بجلی اور پانی کیلئے تو کبھی قومی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کیلئے،
حالانکہ احتجاج کرنا سڑکوں پہ آنا سڑکیں بند کرنا یابھوک ہڑتال میں بیٹھنا یہ سب طالب علموں کی شان کے خلاف ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے طلباء کو یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہے خدارا اب طلباء کی مسائل حل کرو ان کو احتجاج کرنے سڑکوں پہ آنے اور انکو ہروہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرو جن کی وجہ سے ان کی تعلیم متاثر ہو جائے خدارا انہیں پڑھنے دو کیوں کہ یہی ہمارے مستقبل ہیں یہی لوگ ملک اور قوم کا نام روشن کرینگے اگر ہم انہیں احتجاج کرنے سڑکوں پہ آنے پر مجبور کیا تو ہمارے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا آنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے