تمام حلقوں کو برابر حصہ دیا، یہ ہو نہیں سکتا کہ اپوزیشن کی خواہش پر اسکیمات شامل کریں، جام کمال

کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ہم نے کسی بھی اضلاع میں کوئی فرق نہیں رکھا اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے اضلاع کو بجٹ میں برابر کا حصہ دے رہے ہیں یہ ہماری پالیسی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اپوزیشن کی خواہش پر اسکیمات شامل کریں اپوزیشن نے ہماری بات مانی ہے اور ایک فیصلے پر ہم آئے ہیں یہ پہلے ہو سکتا تھا شاید دھرنا اور احتجاج کی ضرورت نہیں پڑتی بجٹ میں صحت اور تعلیم کی شعبے کو اولین ترجیحات میں شامل کر دیا ہے پچھلے سال ہمارا ریونیو 11 ارب اور اس سال اسے ہم 25 ارب تک لے آئے ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ ہمارے لئے بڑا چیلنج تھا ہماری پوری کوشش رہی کہ ہم ہر پہلو کو اچھے انداز‘ انفراسٹکچر‘ صحت‘ تعلیم‘ فنانشل‘ ریونیو سمیت بہت ساری چیزیں ہماری ترجیحات میں شامل ہیں اور پچھلے سال جو ٹاسک ہم نے رکھی تھی الحمداللہ بڑی کامیابی سے عملدرآمد شروع کر دیا ہے انہوں نے کہاکہ اس سال بھی صحت تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کردیا ہے پچھلے سال ڈھائی ہزار کلومیٹر روڈ بنا رہے تھے اس سال بھی 2 ہزار کلومیٹر روڈ پورے بلوچستان میں بڑے چھوٹے روڈ بنا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمارا ہایئر ایجوکیشن میں ہماری پالیسی ہے جتنے بھی بلوچستان کے انٹرگرلز کالجز ہیں وہ الحمد اللہ سارے ڈگری لیول کر دیئے ہیں اور مرحلہ وار ہر ضلع میں کریں گے اور عوام کے لئے آسان قرضہ دیا جائے گا ہمارا 108 بلین کا پیکج ہے بلوچستان میں پہلی دفعہ فنانشل ریگولیشن ٹیکسنگ لارہے ہیں اسی طرح دیگر ڈیپارٹمنٹ کو اسے سے فائدہ پہنچے گا انہوں نے کہا کہ ہم بجٹ اس طرح لارہے ہیں روزگار پیدا کریں اور علاقوں کو ترقی دیں اور حکومت تعلیم‘ صحت کے شعبوں کو آگے لائیں گے صحت کے لئے 8 ارب روپے مختص کئے ہیں جو صرف کورونا سے منسلک ہو گا باقی صحت کا بجٹ الگ ہے انہوں نے کہا کہ مائینگ سیکٹر بلوچستان کے لئے 3 ارب روپے حکومت نے اپنے رکھے ہیں انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ہمارا ریونیو 11 ارب اور اس سال اسے ہم 25 ارب تک لے آئے ہیں ہم نے سوئی کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا اور اسی طرح دیگر پروجیکٹ بھی چل رہے ہیں ان سے ہم اپنے ڈیفسٹ کم کریں گے ہم نے کسی بھی اضلاع میں کوئی فرق نہیں رکھا اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے اضلاع کو بجٹ میں برابر کا فنڈ دے رہے ہیں یہ ہماری پالیسی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اپوزیشن کی خواہش پر اسکیمات شامل کریں اپوزیشن نے ہماری بات مانی ہے اور ایک فیصلے پر ہم آئے ہیں یہ پہلے ہو سکتا تھا شاید دھرنا اور احتجاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں