نوجوان نسل اور ہمارا معاشرہ۔
تحریر۔ابوبکردانش میروانی
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 80 فیصد دیہاتی لوگ خط غربت سے نیچے، زندگی کی بنیادی سہولیاتی سے محروم ہیں۔
جہاں ہم غربت کا سامنا کر رہے وہاں ہی دیگر اہم مسائل جن میں مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، بے روزگاری ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ناقص تعلیمی نظام اور تعلیمی سہولیات، تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو اچھے اور بُرے کا شعور فرائم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ بہتریں تعلیمی نظام ہی بہتریں اور مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔
اگر ہم معاشرے کی برائیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معاشرہ بہت سی برائیوں میں گھیرا نظر آئے گا۔ اگر ان برائیوں کی روک تھام کے لئے اقدامات نہ کیے گئے تو اُن برائیوں کی مزید شاہرائیں کھلتی چلی جائیں گی۔ جس سے ہمارا معاشرہ تباہی کے راستے پر نکل پڑے گا اور ہمارے لئے ذلت اور رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہو گا۔
اگر اپنے اردگرد باہر ماحول کا اندازہ لگانے گھر سے باہر نکلا جائے تو اپنی نوجوان نسل کی گفتگو اور اُس میں استعمال ہونے والے الفاظ پر غور کریں تو دل افسردہ ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کی گفتگو گندی گندی گالیوں جس کا اُس وقت بات کرنے والے اِس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ وہ کیا لفظ استعمال کر رہے شاید وہ عادت سے مجبور اور لاعلم ہوتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہماری نوجوان نسل سے تہذیب اور اخلاقیات کی ایسے خوشبو آتی جس سے ہماری آنے والی نسلیں سیراب ہوتیں۔
جس معاشرے میں ہماری نوجوان نسل پروان چڑ رہی ہے اور ہم اس معاشرے سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس معاشرہ میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، سلطان محمود غزنوی، ٹیپوسلطان جیسے لوگ جنم لیں گے۔
ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں ایسے نوجوان ہیں جو ڈگریاں رکھتے ہیں اُن کے ذہن میں اس بات کو بیٹھا دیا جاتا ہے کہ یہاں ڈنڈے والے کی عزت، پیسے والے کی عزت، جب ہم مثالی کردار یہ پیش کریں گے تو آنے والی نسل سے بہتری کی کیا اُمید لگا سکتے۔
ہمارے معاشرے میں تہذیبی اقدار کی موت اور قانون کی عدم بالادستی ہے غریب اور طاقت ور کے لئے الگ الگ قانون جس نے ہمارے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں معاشرتی بگاڑ اور اس کی اصلاح پر کوئی بحث کو تیار نہیں۔ بحثیت مسلمان بات کی جائے تو مذہب اور دینی مسائل پر بحث اس قدر ہے کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ دینی معاملات میں بحث کرتے نظر آئیں گے ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔ عملی طور پر یہ حال ہے کہ ہماری تاریخ اور موجودہ ہماری طرز زندگی میں دور دور تک کوئی مماثلت نہیں۔
ہم اس بات سے لاعلم ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ صرف ہماری لاعلمی کی وجہ ہے۔ یہ بات کہہ دی جائے تو غلط نہ ہو گی ہم معاشرے کی کردار سازی میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ ہم سب باتیں جانتے ہوئے بھی اچھے اور غلط میں فرق کرنے میں ناکام ہیں۔ برائی کے خلاف آواز اٹھانے میں، غریب اپنا حق لینے اور ریاست انصاف دینے میں ناکام ہے۔
کسی بھی معاشرے کی کردار سازی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔
جرائم میں ملوث بُرے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی برابر میں شریک ہوتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی خاموشی اُن لوگوں کو مزید مضبوط سے مضبوط کرتی جاتی ہے یہاں تک کہ جرائم کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہمیں معاشرے کی کردار سازی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ایک اچھا ماحول دے سکیں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا