نگرانوں اور بچوں کا کھیل
تحریر: انور ساجدی
بلوچستان اور ملحقہ فاٹا میں خونریزی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ مستونگ کے گزشتہ واقعہ کے بعد عید میلادالنبیؐ کے اجتماع پر حملہ اور بڑے پیمانے پر جانوں کا ضیاع اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف حکومتیں ناکامی سے دوچار ہیں۔ کانک میں مرحوم سراج رئیسانی کے جلسہ میں جو دھماکہ ہوا ۔اس وقت کی حکومت نے جانی نقصان کو چھپایا تھا۔نواب محمد اسلم رئیسانی کے مطابق لاشوں کو گنا نہیں گیا اور حکومت نے تعداد کم دکھائی۔ایک اندازہ کے مطابق اس ہولناک دھماکہ میں کم از کم ڈھائی سو افراد جان سے گئے۔ بلوچستان کے کس کس واقعہ کو یاد کیا جائے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جتنے بڑے اور خوفناک واقعات ہوئے ان میں مذہبی انتہا پسندوں کا ہاتھ تھا اور حالیہ واقعات میں بھی الزام تحریک طالبان پاکستان اور داعش پر لگ رہا ہے حالانکہ حال ہی میں افغانستان کے امیر المومنین نے فتویٰ دیا تھا کہ پاکستان کے خلاف حملے حرام ہیں۔اس کے باوجود مسلح جتھوں کا افغانستان سے آکر پاکستان کے اندر خونی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔یا تو ایسا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کئی دھڑے ہیں جن میں سے بعض افغان امیرالمومنین کے احکامات کو نہیں مانتے یاان کارروائیوں میں داعش براہ راست ملوث ہے جو ویسے ہی طالبان حکومت سے نبرد آزما ہے۔عجیب بات ہے کہ عراق اورشام کے علاقوں میں داعش کی کارروائیاں کمزور پڑ گئی ہیں لیکن افغانستان اور بلوچستان میں یہ تنظیم ولایت پہ ولایت بنائے جا رہی ہے چونکہ افغانستان حکومت کی گورننس نسبتاً بہتر ہے اس لئے داعش کو وہاں کم واقع مل رہے ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں کمزور حکومتوں کی وجہ سے یہ بڑی سے بڑی کارروائی بھی کر جاتی ہے۔حالانکہ حکومت پاکستان مستقل آپریشنوں میں مصروف ہے اس کے باوجود حالات پر قابو پانے میں ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمت عملی میں کوئی خامی یا خامیاں ہیں۔ٹی ٹی پی اور داعش کا پاکستان پر مکمل جنگ تھوپنا خالی از اسرار نہیں۔عالمی میڈیا میں تواتر کے ساتھ تبصرے آ رہے ہیں کہ طالبان نے جس طرح امریکہ کے خلاف کارروائیاں کر کے اسے فرار کا راستہ دکھایا تو وہ یہ حربہ پاکستان کے خلاف استعمال کر کے وہی نتائج چاہتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کی فورسزافغانستان پر حملہ آور نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان نے ایک فیصلہ کن جنگ کے بغیر ٹی ٹی پی یا افغان حکومت کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ اس کے اندر شامل پشتون علاقوں کو افغانستان کے حوالے کر دے جہاں تک حالات کی خرابی کا تعلق ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک بڑی وجہ پاکستان کی مختلف سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔طالبان کو تشکیل دینا انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں تھا۔ سوویت یونین کے ریجن میں اثر ونفوذ کو روکنا بحیثیت سپر پاور امریکہ کی ذمہ داری تھی۔پاکستان کی نہیں تھی۔ ضیاء الحق نے نام نہاد ’’جہاد‘‘ کے نام پر اپنی بین الاقوامی سرحد خود ختم کر دی اس کے بعد سے ڈیورنڈ لائن ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔سوویت یونین کی شکست کے بعد پاکستان کی حکومتوں نے اچھے طالبان اور برے طالبان کا جو کھیل شروع کر دیا وہ بھی اس کے گلے کا ہار بن گیا۔جب طالبان نے امریکہ کے خلاف جنگ شروع کر دی تو امریکا باقاعدہ یہ الزام عائد کرتا رہا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کا طرف دارہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر کوئٹہ شوریٰ ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کے کئی سابق امیر اسی علاقے میں مقیم تھے اور موجودہ امیر بھی کافی عرصہ تک کچلاک کے مدرسہ میں پڑھاتے رہے ہیں۔ماضی کی غلط پالیسیوں سے قطع نظر عمران خان نے اپنے دور میں جنرل فیض کے توسط سے ٹی ٹی پی سے جو معاہدہ کیا جس کے تحت 2ہزار تربیت یافتہ جنگجوئوں کو واپس آنے کی اجازت دی یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔کیا پتہ کہ دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار واپس آئے ہوں ماضی میں پاکستان اچھے طالبان کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتا رہا ہے۔2008 اور 2013 کے انتخابات میں اے این پی کے سینکڑوں لوگ دن دیہاڑے مارے گئے جبکہ طالبان نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے لئے انتخابی مہم چلانا ناممکن بنا دیا تھا اور اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ 2007 میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے کمپنی باغ کے باہر طالبان کے ہولناک حملے میں شہید ہوگئیں۔بے نظیر کے قتل نے پاکستانی سیاست کا رخ تبدیل کردیا اور یہاں پر روشن خیالی،ترقی پسند اور انسان دوستی کی حامل سیاسی فورسز پیچھے چلی گئیں۔اسے کیا کہا جائے کہ جنرل پرویز مشرف جو کہ خود کوروشن خیال حکمران سمجھتے تھے وہ نائن الیون کے حملوں سے پہلے طالبان کے سخت حامی اورطرف دار تھے۔سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ریاست اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے جو ریاست سرحدوں کا دفاع نہ کرسکے تو اس کی قومی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے۔جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو یہ بیڈ گورننس کی وجہ سے ہے۔ریاست نے سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ غیر موثر ثابت ہوئی۔گزشتہ حکومتوں نے اسمگلنگ پرآنکھیں بند کرلیں لیکن موجودہ حکومت نے اچانک بارڈر ٹریڈپر مکمل پابندی عائد کر دی۔حالانکہ افغانستان اور بلوچستان کے سرحدی لوگ اسے تجارت سمجھتے ہیں اسمگلنگ نہیں۔بارڈر کی بندش سے ہزاروں یا لاکھوں لوگ نان شبینہ کو محتاج ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے سرحدی لوگ ڈاکے ڈالنا شروع کر دیں گے۔جب سے افغانستان میں جنگ چھڑی ہے تو فاٹا کی معیشت تاراج ہو گئی ہے۔1947ء کے بعد سے انگوراڈہ اور میرانشاہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مرکزتھے اوریہاں کے عوام پر دونوں ممالک کے قوانین لاگو نہیں تھے لیکن گزشتہ ادوار میں آپریشن ضرب عضب،راہ نجات اورنہ جانے کیا کیا؟ فاٹا کے عوام کی تباہی کا باعث بن گئے۔بڑے بڑے کاروبار شوروم اور دیگر مراکز بند ہوگئے اور لوگوں کو یہاں سے نکال کر جنوبی اضلاع میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔عجیب بات ہے کہ فاٹا کے پختونخواہ میں انضمام کے باوجود مرکزی انتظامیہ یہاں بدستور قائم و دائم ہے حالانکہ انتظامی طور پر یہ پختونخوا کے حصے ہیں۔ایک اور بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی یا طالبان کے حملے میں دو اور فیکٹر بھی کام کر رہے ہیں۔ ایک دینی اور دوسرا پشتون قوم پرستی کیونکہ طالبان حکومت بھی افغانستان کی سابقہ حکومتوں کی طرح ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور فاٹا کے انضام کو نہیں مانتے۔ان کا پورے پختونخواہ صوبہ اور فاٹا پر دعویٰ ہے ۔دنیا دیکھے گی کہ اگر افغانستان کو استحکام حاصل ہوا تو پاکستان کے پشتون علاقے اس کا ’’اسٹرٹیجک ڈیتھ‘‘ ثابت ہوں گے کیونکہ افغانستان کی آبادی صرف2کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ پانچ کروڑ پشتون سرحد کے اس طرف رہتے ہیں۔اگر پاکستان کی موجودہ حکومت مزید بربادی سے بچنا چاہتی ہے تو وہ پہلا کام یہ کرے کہ شفاف انتخابات کروانے کا اہتمام کرے اس کے نتیجے میں جوبھی جماعت جیتے اقتدار اسے منتقل کیا جائے۔اگر انجینئرڈ انتخابات ہوئے اور کوئی کاسمیٹک حکومت قائم کی گئی تو ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا جس کی وجہ سے قومی وحدت اور سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔موجودہ حالات میں پاکستان کو مضبوط منتخب حکومت کی ضرورت ہے۔ماضی کے ناکام سیاسی تجربات دہرانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا ۔ اگر حکمرانوں کی خواہش ہے کہ نگراں سیٹ اپ کو طول دیا جائے تو یہ خواہش ترک کرنا ہوگی کیونکہ پاکستان بہت سارے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور اسے بچنا اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا نگرانوں اور بچوں کا کام نہیں ہے۔