آن لائن کلاسسز کے اجراء سے پہلے حکومت انٹرنیٹ سمیت دیگر مسائل حل کرے.
ارسلان بلوچ
کرونا جیسی موزی وباء کی مشکلات کے باعث دنیا بھر میں زوم نامی ایپلیکیشن سے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا اور باقاعدگی سے آن لائن کلاسز دنیا بھر میں چل رہے ہیں.
جس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سب سے غریب صوبہ بلوچستان میں بھی آن لائن کلاسز کا باقاعدگی سے اجراء ہوچکا ہے۔۔۔۔جو کہ طلبہ سمیت فکر مند اساتذہ کے سمجھ سے بالاتر ہے. کیوں کہ بلوچستان کے کئی اضلاع میں گزشتہ 8 سال سے انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے.
اور اُس کے ساتھ ساتھ 25 سے30 فیصد طلباء بلوچستان کے ایسے دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں نیٹ ورک تک نہیں ۔لیکن ان سب مسائل کے باوجود آن لائن کلاسز کا ہونا طلبہ کے ساتھ کسی ظلم سے کم نہیں.
واضح رہے کہ بلوچستان کے مختلف اضلاح پنجگور،تربت شال،مستونگ حب،دلبندین، خضدار،قلات سمیت دوسرے اضلاح میں طلبہ کا آن لائن کلاسز لینے اور انٹرنیٹ کی بحالی کے لیے مختلف احتجاج ریکارڈ کروائے گئے ہیں.
جس میں طلبہ کا خضدار اور کوٸٹہ میں ایک سہ روزہ بھوک ہڑتال کیمپ بھی لگایا گیا لیکن ان سب چیخ، و پکار کے باوجود انٹرنیٹ مسئلہ کو حل کیے بغیر آن لائن کلاسز کا جاری ہونا نہ صرف ایک منفی قدم ہے بلکہ طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش ہے.
واضح رہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ سازشیں آج نہیں بلکہ کئی سالوں سے چلتی آرہی ہیں لہذا حکومت وقت کو چاہئے کے ان سارے مسائل کو حل کرے تاکہ طلبہ اپنی پڑھائی با آسانی جاری رکھ سکیں۔
حتیٰ کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ بلوچستان کے طلبہ اکثر بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے زمانہ طالب علمی میں بھوک،پیاس، غربت، بے گھر،بغیر ہاسٹل اور اس طرح کے دیگر کئی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں.
آن لائن کلاسز کے صرف انٹرنیٹ پیکیجز کالج کی فیسوں سے زیادہ ہوتے ہیں تو غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیسے اتنی بھاری فیسیں ادا کرسکیں گے.