آن لائن کلاسز اور بلوچستان کے طلباء

تحریر:عقیل احمد
بلوچستان کے باسی آج تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ خوش قسمت بلوچستان کے قسمت پر ہنسے یا روئے۔ اسکی بھی ایک انمول سی وجہ ہے یہاں کے طلباء آن لائن کلاسز کے فیصلے کے مارے ہیں بلوچستان میں آنلائن کلاس کی خبر سن کر یہاں کے لوگوں کو حیرت بھی ہوئی اور بہت ہنسی بھی آئی کہ حکمران یہ نہیں جانتے کے اس صوبے کےزیادہ تر اضلاع میں حکمرانوں کی مہربانی سے انٹرنیٹ تو دور کی بات صحیح سے سگنلز بھی موجود نہیں ہیں اور صاحبان نےآن لائن کلاسز شروع کروا دی سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب طلباء کلاس لینا شروع کریں تو دوران کلاس سگنل ڈروپ ہو جاۓ تو پھر کیا کریں گے اوپر سے مہنگے نیٹ پیکجز نے تو غریب طلباء کی چیخے نکال دی ہیں اگر اتنا ہی خرچہ کرنا ہوتا تو غریب عوام اپنے پیٹ پالنے کیلئے سائڈ بزنس کر لیتے ایک اور رونا جب پتا چلا کہ ایک دفعہ کلاس کے دوران جناب استاد محترم کا موبائل بجلی نہ ہونے کے وجہ سے بند ہو گیا اب کئی انٹرنیٹ تو کئی کیا مسئلہ۔ مگر اس کے باوجود بھی سرکار کے کان تک بات نہیں پہنچی۔ آواز پہنچانے کے لیے آئینی طریقہ سے پر امن احتجاج کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں کے طلباء پرامن احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے ہر طلباء انٹرنیٹ پیکج افورڈ نہیں کر سکتا اور اکثر علاقوں میں بجلی کا کوئی اتا پتا ہوتا ہے کہ کب آۓ کب جاۓ اور نہ ہی ہر طالب علم کے پاس سمارٹ فون موجود ہے جو ۲ گھنٹے تک وڈیو کلاسز لے سکے۔ پچھلے دنوں جب طلباء حضرات حق مانگنے نکلے تو انکی جو عزت افزائی کی گئی دنیا نے دیکھا عورت کی عزت بھول گئے تھے انکو روڈوں پر ایسے گھسیٹتے رہے جیسے وہ کرپشن یا بہت بڑے مجرم ہو جس صوبہ کے شہر سے گیس نکلتی ہو اسی شہر کو گیس سے محروم رکھنا ان کے ساحل وسائل لے کر انکو سہولیات سے محروم رکھنا طلباء نے شاہد اس سے بھی بڑا جرم تھا طلباء کو ہراساں کرنے والے کیس ابھی تک کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا کہ اب یہ واقعہ۔ ان سب حالات کو دیکھ سب کا یقین پختہ ہو گیا کہ اپنے بچوں کو مت پڑھاو اگر پڑھ لکھ کر ان میں شعور پیدا ہوا تو یہ اپنا حق مانگے گے اور اگر حق مانگے گے تو وہ سب ہو گا جو پچھلے دنوں ہمارے طلباء طالبات کے ساتھ ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں