منشيات فیشن یاایک زہر
تحریر:ابوبکردانش میروانی
26 جون منشیات کے خاتمہ کا دن ہے اور اس دن کو دنیا بھر میں منشیات کا عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں سیمینارز منعقد کرتے ہیں اور لوگوں کوآگاہی دیتےہیں مگر اس لعنت کے عادی افرادمیں کمی نہیں آتا، اسکا بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بہت سے لوگ اس کو فیشن اور شوق سمجھ کر کرتے ہیں،یابہت سے شوق دوسروں کی نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں لیکن بعد میں وہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتے ہیں جن کو کوشش کے باوجود چھوڑنا ممکن نہیں رہتا۔ منشیات ان میں ایک ہے جو نہ صرف انسان اور اس کی زندگی بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے اسی وجہ سے منشیات کو لعنت کہا جاتا ہے۔منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی سگریٹ نوشی ہے، جبکہ پہلے سے نشہ کے عادی افراد بھی منشیات فروشوں کے آلہ کار بن کر دوسروں کو مفت منشیات کی لت لگا کر بعد ازاں انہیں منشیات فروخت کرنے لگتے ہیں۔منشیات کا استعمال اتنی بری عادت ہے کہ یہ انسان سے جائز و ناجائز ہر کام کروا لیتی ہے چاہے وہ کسی بے گناہ انسان کا قتل ہی کیوں نہ ہو۔جبکہ جرائم کے واقعات کو دیکھا جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم نشے کی وجہ سے ہوتے ہیں، بیشتر ٹریفک حادثات بھی عموماً اسی باعث رونما ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 15سے 64سال عمر کے تقریباً 35 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں، جبکہ پاکستان میں تقریباً 80لاکھ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن مین 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 55اور دیگر صوبوں کے 45فیصد افراد نشے کے عادی ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 5لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اپر کلاس لوگ آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ مڈل کلاس کے لوگ فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سبب 70ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن ہر سال پاکستان میں اس سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کے مستقبل کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جہاں منشیات سے 13سے 25سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کیلئے مخصوص ہسپتالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو موجود ہیں وہاں سہولتیں ناکافی ہیں جبکہ غیر سرکاری طور پر یہ علاج بہت مہنگا پیچیدہ اور طویل ہے۔
ہمارے معاشرے میں کم عمر افراد نشے کو بطور فیشن اپناتے ہیں جبکہ بالغ اور پختہ عمر کے لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کیلئے اس لعنت کا سہارا لیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں پان، نسوار، گٹکا، چھالیہ، سگریٹ جیسی نشہ آور اشیاء کو نشہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، جبکہ درحقیقت انہی سے دیگر نشہ آور اشیاء کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔ منشیات میں سگریٹ، چھالیہ، نسوار، پان، چرس اور شیشہ وغیرہ کی مقبولیت کے بعد اب آئس نامی مہنگے نشے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے جو کہ نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ نوجوانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آئس نشہ بہت ہی طاقتور اور اثرپذیر ہے، جس کی ایک خوراک ہی انسان کو اس کا عادی بنادیتی ہے۔ شفاف چینی کے دانوں کی شکل سے ملتے اس نشے کو گلاس یا کرسٹل کا نام سے بھی دیاجاتا ہے، جوکہ ایکسپائر ہوجانے والی ادویات پیراسٹامول، پیناڈول، وکس، اور نزلہ و زکام کی دیگر ادویہ سے ایفیڈرین اور ڈیکسٹرو میتھارفن نکال کر تیار ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق آئس کے استعمال کے اثرات انتہائی تباہ کن ہیں، جس سے انسان کا حافظہ کمزور ہوجاتا ہے اور یہ اعصابی امراض کے ساتھ گردوں اورجگر کے لیے بھی انتہائی مہلک ہے۔بدقسمتی سے اس نشے کا استعمال تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے، جہاں اسکول کالج اورجامعات کے لڑکے لڑکیاں اس کے استعمال کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ حلق کی خرابی، جگر کی خرابی، امراض قلب، قلت عمر، معدہ کے زخم، فاسد خون، تنفس کی خرابی، کھانسی، سردرد، بے خوابی، دیوانگی، ضعف اعصاب، فالج، ٹی بی، بواسیر، دائمی قبض، گردوں کی خرابی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں سیگریٹ کے علاوہ نشہ آور چیونگم کا استعمال کررہی ہیں، فلیتو نام چیونگم تھائی لینڈ اور یورپ سے منگوائی جاتی ہے یہ چیونگم 500 سے 1200 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے مختلف نشہ اور اشیاء کے استعمال پر قابو پایا جائے تاکہ ملک سے منشیات کی لعنت کا خاتمہ اور قوم کا مستقبل کو محفوظ ہوسکے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشی اصلاح کا علم اٹھانے والی سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔ پاکستان میں انسداد منشیات کے قوانین پر عملدرآمد کروانے کیلئے اینٹی نارکوٹکس فورس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پولیس، ایف آئی اے، کسٹم، فرنٹیئر کانسٹیبلری، ایئر پورٹ سیکورٹی فورس اور دیگر ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کے مابین رابطوں کے فقدان کی وجہ سے منشیات کی روک تھام میں اب تک واضح کامیابی نہیں مل پائی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے منشیات کی لعنت ختم کرنے کے لیے اینٹی نارکوٹکس کو مزید فعال بنائے اور اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرکے ان ضمیر فروشوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے مشاغل کیا ہیں۔ملک کی سماجی و رفاہی تنظیموں، جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹرز و طبی امور سے وابستہ افراد کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے دائرہ کار میں مکمل کوشش کریں۔ میڈیا کے وسائل کو نشہ مخالف ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جائے۔اس کے علاوہ ہماری نوجوان نسل کو صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت ہے، ان کو بنیادی سہولیات، کھیلوں کے میدان اور مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحتیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرسکیں۔ نوجوان نسل میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ نشے کو کبھی مذاق میں بھی استعمال نہ کریں اور نہ ہی کسی نشہ کرنے والے یا بیچنے والے شخص کے ساتھ دوستی کی جائے۔ کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ کسی منشیات فروش یا استعمال کرنے والے شخص کے چکر میں پھنس کر نشے کے عادی بن جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے جو کہ تباہی و بربادی پر منتج ہوتی ہے۔