مسیحائی

تحریر:ڈاکٹر رحیم خان بابر
(ترجمان-ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان)
کیا کریں ذکر مریضوں کی شفایابی کا
خود مسیحا بھی ترستے ہیں مسیحائی کو
کردار ہمیشہ سے ہی شخصیت کا آہینہ دار رہا ہے،بہترین کردار ہی بہترین شخصیات کو جنم دیتا ہے،
موجودہ حالات میں کورونا وائرس کی اس عالمگیر وباء نے مسیحاوں کی شکل میں ایسے شخصیات متعارف کرادی ہیں جو اپنے کردار سے ثابت کررہی ہیں کہ انہیں اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں سے زیادہ وہ زندگیاں عزیز ہیں جن کو بچانے کا عہد وہ کرچکے ہیں جن زندگیوں کو بچانے اور جن درد مندوں کا آسرا بننے کا وہ حلف لے چکے ہیں،کورونا وائرس کی اس عالمگیر وباء سے جہاں اس وقت دنیا بھر میں ہونے والی اموات 1 لاکھ 61 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے وہاں اس سے نبردآزما ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکس بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں،
کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکس کے اعداد و شمار کا ذکر کیا جائے تو ملک میں اس وقت 71 ڈاکٹرز،نرسز و پیرامیڈیکس اس عالمگیر وباء کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرچکے ہیں،مگر اب بھی ان میسحاوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ یہ مسیحا جہاں ایک طرف اس عالمگیر وباء کے خلاف ایک ڈھال کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف انہیں ملک کے ہر کونے سے حکومتی عدم توجہی کا بھی سامنا ہے،
ہسپتالوں کی خستہ حالی،غریب و نادار مریضوں کی بدحالی کے سبب اور خواب غفلت میں پڑے ان بے حس حکمرانوں کو جگانے کیلئے یہ ینگ ڈاکٹرز مسیحائی کے ساتھ ساتھ ان نادار اور بے آسرا مریضوں کا مقدمہ بھی لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں،
ہمارے سسٹم کا یہ دستور ہے کہ زمہ داران کو اپنے فرائض کا احساس دلانے اور احساس زمہ داری جگانے کیلئے بھی یہاں سڑکوں کا رخ کرنا پڑتا ہے،
یہ ینگ ڈاکٹرز بھی مسیحائی کیساتھ ساتھ حکمرانوں کو ہسپتالوں کی حالت زار،مریضوں کی بے بسی کا احساس دلانے اور اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،
اسی جدوجہد کے نتیجے میں ہسپتالوں میں آئی-سی-یوز کے قیام،جدید مشینری،ادویات اور عام آدمی تک ان محدود سہولیات کی فراہمی کا سہرا بھی انہی ینگ ڈاکٹرز کے سر ہے،
یہ ینگ ڈاکٹرز مسیحائی کیساتھ ساتھ ہسپتالوں کی حالت زار بہتر کرنے اور عام آدمی تک صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کسی بھی جدوجہد اور قربانی سے دریغ نہیں کرتے،مگر ان کی بدقسمتی یا پھر حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا کہہ لیجئے کہ ان کو درپیش مسائل کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا،36 گھنٹوں تک ڈیوٹیز سرانجام دینے والے یہ ینگ ڈاکٹرز 6-7 ماہ تک اپنے محدود ماہانہ وظائف سے بھی محروم رہتے ہیں،موجودہ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال میں یہ ینگ ڈاکٹرز جہاں ایک طرف اپنے متعلقہ وارڈز میں مکمل یکسوئی کیساتھ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں وہاں دوسری طرف ہسپتالوں کو درپیش افرادی قوت کی کمی کے پیش نظر رضاکارانہ طور پر کورونا آئسولیشن وارڈز میں اضافی ڈیوٹیز دینے میں بھی ہار محسوس نہیں کرتے،
کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے سبب او-پی-ڈیز کی بندش سے مریضوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ بھی یہی ینگ ڈاکٹرز ٹیلی میڈیسن کے ذریعے کررہے ہیں تاکہ ہر ممکن حد تک گھر بیٹھے مریضوں کے مشکلات کا ازالہ ممکن ہوسکے،
مگر پھر بات آجاتی ہے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے حکومتی سوتیلے پن کی جس کا یہ ہمیشہ سے ہی شکار ہوتے آرہے ہیں،جس کا کبھی بھی سدباب نہیں کیا گیا،
یہ سوتیلا پن کہی ان کی کارکرگی متاثر کرنے کا سبب نہ بنے،ان کے حوصلے بلند ہیں یہ ایک امید کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنی خدمات پیش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے،
سماجی رابطوں میں فاصلوں کے اصولوں پر عمل کیجئے،
اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں بچائیے،
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں