اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کی جنگ میں ٹیکنالوجی، اقتصادیات اور اعتقاد کا کردار

تحریر: محمد صدیق کھیتران
آج کے قومی اخبارات میں سعودی عرب کے ولی عہد کی طرف سے اسرائیل کو مزید اسلحہ نہ بیچنے کے مطالبے کی شہہ سرخی لگائی گئی ہے۔ اس نے مشرق وسطئی میں پائیدار امن کیلئے اسرائیل کو 1967 کی جنگ میں قبضہ شدہ علاقے واپس کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ حالیہ تشدد میں اسرائیل 13 ہزار معصوم فلسطینیوں کو بارود سے بھون چکا ہے۔ان میں 5 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 6 اکتوبر سے جاری اس لڑائی میں 14سو اسرائیلی بھی مارے جا چکے ہیں۔ قریب تین ہزار اسرائیلی حماس کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔اصل دفاعی قوت ٹیکنالوجی ہوتی ہے۔ جس نے پچھلے کئی سو سالوں سے عقیدے کی طاقت کو مغلوب کر کے رکھا ہے۔ کسی بھی ملک میں عقیدے کے ماننے والے کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں مگر ان کی آزادی کو ٹیکنالوجیکل پاور نے باندھ کر رکھا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی افق پر امریکہ کو دفاعی برتری حاصل ہوگئی تھی۔ اس نے دوسری دو بڑی عالمی قوتوں برطانیہ اور فرانس کے کردار کو محدود کردیا تھا۔ ماڈرن دنیا میں آگے چل کر طاقت کے عناصر میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہوگئی ہے۔ کہتے ہیں امریکہ کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشن کمنٹری دے رہے تھے کہ 4 اکتوبر 1957 کو روس نے پہلا سپٹنک Sputnik-1 سیٹلائٹ فضا میں چھوڑ دیا ہے۔اس اعلان نے امریکہ کو جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگایا۔ مشہور امریکی موجد جوہن کاو ” John Cow” کہتا ہے ہم نے اس کا توڑ تدبر سے نکالا۔پورے امریکی نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ ریاضی اور سائینس کو بچوں کے نصاب میں شامل کرایا۔ اس محاذ پر قومی غفلت کو اپنے دفاع کا حصہ بنایا۔ 900 ملین ڈالر کے بجٹ سے نیشنل تعلیمی ڈیفنس ایکٹ پاس کیا۔ اتنی بڑی خطیر رقم کی موجودہ مالیت 10 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ ہم نے طلبا کو وظائف دئیے۔ سائنسی آلات اور تحقیق کیلئے قرض فراہم کیئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا۔ اگلے 10 سالوں میں ناسا بھی بن گیا اور نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم بھی رکھ دیا۔ چاند کے سفر کی سائنسی مہم میں خلائی سفر کی ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنٹ جیسی صنعت کا ظہور ہوا۔
اسی طرح 1967 میں 6 دن کی عرب، اسرائیل جنگ میں جولان کی پہاڑیوں کو شام نے،مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کو اردن نے، غزہ کی پٹی اور جزیرہ سینا کو مصر نے جبکہ کچھ علاقہ لبنان نے کھویا۔ جنگ کی فتوحات کی بدولت اسرائیل نے اپنے ملک کے رقبے میں تین گنا کا اضافہ کیا۔گوکہ اسرائیل نے یہ جنگ جیت لی تھی مگر اس کی حالت بھی مخدوش تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی ابھی تک اسرائیل کو وجود میں آئے صرف 19 سال ہوئے تھے۔فرانس کے ڈیگال دوسری عالمی جنگ کے ایک معتبر اتحادی بن کر ابھرے۔ اس نے اپنے اقتدار کے 10 سالہ دور میں( 1959/69) اسرائیل کے ساتھ مضبوط دفاعی اتحاد بنائے رکھا۔ اس اتحاد سے دونوں فریقین ایک دوسرے کی خفیہ مدد کرتے رہے۔ یہودی سائنسدانوں نے فرانس کے جوہری ہتھیار بنانے میں مدد کی۔ جبکہ فرانس نے روائیتی ہتھیار تواتر کے ساتھ اسرائیل کو فراہم کیئے۔ مئی 1950 سے امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مل کر ایک اعلامیہ جاری کیا۔جس میں مشرق وسطئی کو فوجی اسلحہ بیچنے کو بہت ہی محدود کردیا گیا تھا۔ یہودی دور اندیش لوگ ہیں۔ امریکہ ان کی پیٹھ پر کھڑا تھا۔انہوں نے 1948 میں ہی ایک زیرزمین اسلحے کی فیکٹری اسرائیل میں لگادی۔ جس میں بندوقیں اور کارتوس بنتے تھے۔ڈیوڈ گورین نے کئی وفود دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے پر لگادئیے۔ 1936 میں ایک یہود ارضی "Yahud Arazi "نامی شخص نے پولینڈ سے اسٹیم بوائلر میں ہزاروں بندوقیں یہودیوں کے زیر کنٹرول ساحلی بندرگاہ حیفہ میں پہنچادیں۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا۔1948 میں ڈیوڈ گورین کے آدمی 5 بڑی مشین گنیں نکاروگوا سے خرید کر لے آئے۔ بلکہ اسرائیل 1955 تک ان چھوٹے چھوٹے ممالک کے باغیوں سے اسلحہ خرید کر لاتا رہا۔ جب 1956 میں سوویت یونین نے 250 ملین ڈالرز کا اسلحہ مصر کو فروخت کیا۔ تب پھر اسرائیل پر سے لگائی گئی حد بندی بھی غیر موثر ہوگئی۔دوسری طرف مصر نے اسی سال نہر سویئز کو اپنی ملکیت میں لے لیا۔جس پر فرانس تلملا اٹھا۔وہ مکمل طور پر اسرائیل کی جھولی میں آگرا۔اوپر سے اسرائیلی حکومت نے فرانس کو دوبارہ نہر سویئز پر قبضہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرادی۔فرانس نے ناصرف اسلحے کی بارش کردی بلکہ اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک کو اپنے سلامتی کے اداروں کے ساتھ باہم مل کر کام کرنے کا راستہ مہیا کیا۔ فرانس نے 1960 میں اسرائیل کو 200 ٹینک اور 72 جنگی طیارے بیچنے کا اعلان کیا۔اس دوران 2 جون 1967 کو اسرائیل نے فرانس کو مصر پر پیشکی حملہ کرنے کیلئے اعتماد میں لیا۔ جس کی فرانس کی کابینہ نے منظوری نہیں دی۔اور ساتھ مزید اسلحہ بیچنے پر بھی پابندی لگادی۔دوسری طرف 1967 میں فرانس کو اپنی افریقی نوآبادی الجیریا کو بھی آزاد کرنا پڑا۔دنیا کے حالات بدلتے دیکھ کر فرانس بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوا۔چارلس ڈیگال نے اس وقت مشہور بات کی تھی۔کہ” ڈیگال کے فرانس میں کوئی دوست نہیں ہوتا بلکہ فرانس کے مفادات ہی اس کے دوست ہوتے ہیں۔”ڈیگال کے جانشین جارج پومپیڈو” Georges Pompidou” نے بھی اسی کی ہی پالیسی کو جاری رکھا۔اس نے تو یہاں تک کیا کہ اسرائیل کیلئے تیار کیئے گے 200 ٹینک لیبیا کو اور 50 معراج جنگی جہاز اس کے دشمن ملک شام کے ساتھ بیچ دیئے۔ اسرائیل نے بھی فرانس پر انحصار ختم کرکے امریکہ سے رشتے مضبوط کرلیئے۔ امریکہ نے جوابا” 1962 میں صدر کینڈی کے دور میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ہاوک (Hawk ) اسرائیل کو فراہم کردیئے۔ادھر اسرائیل نے معراج فیکٹری میں کام کرنے والے ایک سوئٹزرلینڈ کے انجینئر کو رشوت دے کے جہاز کا بلیو پرنٹ حاصل کرلیا۔جس سے اس نے نئے نام سے "کفر” Kfir جہاز بنانے کا 1973 میں اعلان کیا۔اس نے اس پر بس نہیں کی بلکہ 1978 میں نئے نام سے مراکاوا ” Merkava” ٹینک بھی بنا کر فوج کے حوالے کردیا۔ قومیں جنگیں صرف عقیدے اور بہادری سے نہیں جیت پاتیں۔ اگر 500 سال پہلے والے اسپین کو دیکھیں تو اس نے 1491 میں بحری طاقت ، بارود اور گھوڑے کی مدد سے دونوں امریکی براعظموں پر قبضہ کیا۔ ظلم کرنا اور ملکوں کو لوٹنا ہر دور کی ترقی یافتہ قوم کا خاصہ رہا ہے۔جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہی مسلح یورپ کو ایک کروڑ 23 لاکھ افریقی غلاموں کو پکڑ کر امریکہ لے جانے کی طاقت مہیا کی۔امریکہ کا جب دور آیا تو اس نے جاپان، کوریا، ویت نام، کمبوڈیا، عراق، لبیا اور افغانستان سمیت دنیا کے ہرایک ملک میں ظلم روا رکھا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ انسانی تاریخ میں واقعات کا تسلسل یہ بتاتا ہے کہ قوموں کی اصل طاقت ان کی ٹیکنالوجی پر گرفت سے مشروط ہے۔اقتصادی طاقت بھی اسی کی ہی ضمنی پیداوار ہے۔ جن قوموں کے پاس ان عوامل کی کمی ہے وہ ملک آزاد نہیں ہیں۔ خود سعودی عرب کا ولی عہد بھی آزاد نہیں ہے اور ناہی وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔اس کا ملک تو خود تیل کی دولت سے مسلمان ملکوں میں خون بہانے اور انتشار پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے۔چند سال پہلے تک امریکہ کے بعد ناصداق ( NSADA ) اسٹاک ایکسچینج میں اسرائیل کی کمپنیاں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تعداد میں رجسٹرڈ تھیں۔یہ تعداد چین ، ہندوستان، روس سمیت یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ اسرائیل آئے روز نئی کمپنیاں کسی نئے خیال اور ایجاد سے رجسٹرڈ کرواتا ہے۔یہ تعداد 2011 تک 3850 تھی جس کا مطلب یہ ہے ہر ایک 1844 مردو وزن اسرائیل کا گروپ ایک نئی کمپنی بنا کر کام کرتا ہے۔یہی وجہ ہے 12 جولائی 2006 کی لبنان ، اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا ونچر شئیر کا حصہ 15 فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہوگیا تھا۔ یہ جنگ 14 اگست 2006 تک جاری رہی مگر آخری دن تل ابیب اسٹاک ایکسچینج کی فروخت جنگ شروع ہونے والے دن سے زیادہ تھی۔ حیرت ہے اسرائیل کو اپنی پیدائش کے سال 1948 میں دو چیلنجز کا سامنا تھا یہ کہ
1 لاکھوں عربی یہودی مہاجر نقل مکانی کرکے عرب ممالک سے اسرائیل پہنچ گئے تھے
2 دوسری عالمی جنگ میں دنیا بھر سے لاکھوں یہودی بھی اسرائیل پہنچ گئے تھے۔
صرف دوسال کے اندر اسرائیل جس کی آبادی 8 لاکھ تھی وہ بڑھ کر دوگنا ہوگئی۔ آگے بڑھ کر سات سال کے بعد اسی یہودی ریاست کی آبادی 3 گنا ہو گئی تھی۔بہت سارے یہودی مہاجرین کوکشتی سے اترتے وقت ہی بندوق ہاتھ میں تھما دی جا تی تھی۔جن کو وہ چلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے اسرائیل کو بناتے وقت اتنے یہودی مارے گئے تھے جتنے امریکہ نے دونوں عالمی جنگ میں گنوائے۔بھوک اور کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ سارے یہودیوں کو خوراک راشن بندی میں ملتی تھی۔فی آدمی کو ہفتہ بھر کیلئے ایک انڈہ ملتا تھا۔راشن خانوں پر لمبی لمبی قطاریں لگتی تھیں۔مگر اس کے باوجود اس ملک نے 60 سال کے اندر 55گنا اقتصادی ترقی کیسے کرلی؟ تاریخ کریدنے کا مقصد یہ ہے کہ کیسے کوڑی کوڑی کو محتاج دربدر یہودی مہاجر ین نے اپنی دنیا بدل دی ہے۔ امریکہ کے مشہور لکھاری اور مزاح نگار مارک ٹوائن لکھتے ہیں۔ ایک ویران، برباد ملک، ہٹلر کے مظالم سے بجھی بجھی زندگی اور لاکھوں افراد کے کھوجانے میں غم کی ماری قوم نے کس طرح متحرک اور اقتصادی طور پر توانا ریاست بنا ڈالی ہے۔ اس طرح کے ملتے جلتے حالات میں دوسری چھوٹی قوموں نے خاص کر سنگاپور، تائیوان، ملیشیا اور جنوبی کوریا نے بھی تاریخ ساز ترقی کی مگر اسرائیل نے تو ریسرچ اور تحقیق کے کئی ہمالیہ سر کرلیئے۔ یہ چھوٹی سی قوم مکمل طور پرمختلف الاجزا ہے۔اس ( Heterogeneous ) ہیٹروجنیس مگر چھوٹی آبادی کے اندر 70 مختلف زبانیں، رنگ و نسل کے مہاجر آکر آباد ہوئے۔ان کی تعلیم مختلف ہے۔وہ بغداد،یمن، پولینڈ ، روس، یورپ ،ایتھوپیا اورامریکہ سمیت ہر ایک ملک سے نکل کر اسرائیل منتقل ہوئے۔ بقول ان کے 2 ہزار سال بعد آکر وہ واپس ایک نئے دیس میں کیسے بس گئے۔ بظاہر ان کے پاس اکٹھا رہنے کے دو جواز ہیں۔ایک ان کی مذہبی کتاب دوسرا 2ہزار سال سے ان پرمختلف ممالک کی طرف سے روا رکھے جانے والا تشدد اور پھر اب وجود کو لاحق خطرہ ہے۔ کیا وہ اس وجود کی جنگ کو ٹیکنالوجی ، اقتصادی طاقت اور یہودی اعتقاد کے بل بوتے پر جیت پائینگے؟؟؟
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں