ڈبل اے استاد

تحریر: عزیز سنگھور
مہذب دنیا میں والدین کے بعد اساتذہ کی عزت و احترام کیا جاتا ہے کیونکہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ استاد کا ہر آدمی پر اتنا حق ہے جتنا والدین کا اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ اگر کہیں بھی قطار لگی ہو وہاں معلوم پڑے کہ کوئی ٹیچر یا استاد پہنچ جائے تو ان کو اس لائن سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس لئے دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور محترم رشتہ استاد ہی کا ہوتا ہے۔
لیکن ہمارے یہاں اساتذہ کی عزت دور کی بات ہے۔ ان سے بدتمیزی کی جاتی ہے۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جب بلوچستان یونیورسٹی کی خواتین اساتذہ اپنی تنخواہوں کی عدم فراہمی کے لئے احتجاج کررہی تھیں کہ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی علی مدد جتک نے ان سے بد تہذیبی اور بدکلامی کا مظاہرہ کیا۔ اس حرکت کی وجہ سے بلوچستان کی صدیوں پرانی روایات کی پامالی ہوئی۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کے اساتذہ کرام جو پچھلے 3 سے 4 مہینوں کی تنخواہوں سے محروم ہیں، بالخصوص رمضان المبارک اور عید کی آمد ہے۔ وہ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے احتجاج ہر شہری کا بنیادی اور جمہوری حق ہے انکے مسائل حل کرانا حکومت، ریاست اور عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔
یہ سب انکی مہربانی ہے۔ جس کی وجہ سے ماشااللہ اور سبحان اللہ والوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا گیا۔ انہیں اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کا انتخاب تک نہیں آتا۔ انہیں خواتین سے کس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے وہ انہیں معلوم نہیں ہوتا۔
ماضی میں بھی بلوچستان سے ایسے لوگ لائے گئے جن کا تعلق بس اڈوں سے تھا۔ جنہیں جتواکر اسمبلی کے رکن بنا دیئے گئے پھر انہیں وزیر بنادیا گیا۔ شاید بلوچستان اسمبلی ہی دراصل ایک بس اڈہ ہے۔ ابھی سننے میں آیا کہ دوسروں کے موٹر سائیکل رکھنے والے بھی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ جن کی وجہ سے بے شمار لوگ اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
یہ اسمبلیاں ہیں۔ جہاں قانونی سازی ہوتی ہے۔ عوامی مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا ہے۔ شاید ان کے پاس عوامی مینڈیٹ کی جگہ فارم 47 ہے۔ جس کی بدولت وہ رکن اسمبلی بن گئے۔ فارم 47 کو ملک کے تمام میوزیموں میں رکھنا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس فارم کی اہمیت اور افادیت کا علم ہو۔ یہ فارم تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
منگل کے روزگوادر کے علاقے شنکانی در میں جاری دھرنے پر پولیس نے ہلہ بول دیا دھرنے میں موجود خواتین کو گھسیٹا گیا جبکہ وہاں موجود تین نوجوانوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ احتجاجی دھرنا گزشتہ سال دسمبر میں جبری لاپتہ لالا رفیق کی عدم بازیابی کیخلاف دیا جارہا تھا۔ لالا رفیق کو گوادر شہر سے بچوں سمیت اغوا کیا گیا تھا جبکہ بعدازاں بچوں کو چھوڑ دیا گیا تاہم تین مہینے گزرنے کے بعد بھی وہ بازیاب نہیں ہوسکے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جبری گمشدگیوں کیخلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک خواتین و دیگر کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جبری گمشدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چوبیس مارچ 2024ءکو بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاﺅ سے دو افراد کو لاپتہ کردیا گیا جبکہ لواحقین نے ان کی جبری گمشدگیوں کیخلاف جھاﺅ لسبیلہ روڈ پر دھرنے دے کر روڈ کو آمد رفت کے لیے مکمل بند کردیا تھا۔ لاپتہ ہونے والوں کی شناخت ڈاکٹر طاہر اور ظفر کے ناموں سے ہوئی۔ لواحقین کے مطابق ان میں سے ڈاکٹر طاہر کو بلا کر حراست میں لیا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔ لواحقین نے کہا کہ اگر ان سے کوئی مجرم ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
اسی روز یعنی چوبیس مارچ کو بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری سے دو افراد کو حراست کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن کی شناخت میر خان ولد سید خان اور حسین خان ولد سید خان کے ناموں سے ہوئی۔ لاپتہ ہونے والے دونوں سگے بھائی ہیں۔ انہیں اس وقت جبری لاپتہ کردیا جب وہ اپنے ایک مریض کو علاج کی غرض سے ہسپتال لے جارہے تھے۔ اس قبل زہری کے علاقے سے بلال احمد ولد استاد محمد بخش میراجی نامی نوجوان کو تشدد کے بعد حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا۔
پچیس مارچ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں امیر حمزہ ولد مزار خان کو لاپتہ کردیا گیا۔ ان کی جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین نے جنگل کراس کے مقام پر روڑ کو ہرقسم کی ٹریفک کیلئے بند کردیا۔ جس کے باعث کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر درجنوں گاڑیاں پھنس گئیں۔
اسی طرح بلوچستان کے علاقے مستونگ سے فورسز نے دو افراد کو لاپتہ کردیا۔ لواحقین کے مطابق غلام اللہ لہڑی ولد رکیا خان لہڑی کو 26 مارچ 2024ءرات ساڑھے بارہ بجے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے انہیں گھر سے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد لاپتہ کردیا گیا۔ اس سے قبل مستونگ کلی عزیزآباد کے رہائشی نوجوان صدام حسین کو لاپتہ کردیا گیا۔ صدام حسین محکمہ تعلیم میں ملازم ہیں۔ جس کو 19 مارچ 2024ءکو رات بارہ بجے کےقریب چلتن پمپ مستونگ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
ستائیس مارچ 2024ءکو کراچی سے جبری لاپتہ دو بلوچ نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ لواحقین کے مطابق دونوں نوجوان جبری گمشدگی کے شکار تھے۔ جنہیں ماورائے عدالت قتل کرکے لاشیں پھینک دی گئی۔ لواحقین کے مطابق دونوں بلوچ نوجوانوں کو 17 اگست 2023ءکو کراچی کے علاقے سنگھولین لیاری سے لاپتہ کیا تھا۔ جن کی شناخت باکسر شعیب اور زمان کی ناموں سے ہوئی۔ مذکورہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے متعدد بار احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے تھے۔
انتیس مارچ کوبلوچستان کے صنعتی شہر حب سے ایک ٹیچر جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔ بہروز دلاوری نامی استاد کو سرکاری اہلکار ان کے گھر سے زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے۔ لواحقین کا کہنا تھاکہ انہیں امیر آباد حب چوکی سے اٹھایا گیا تھا۔ حراست میں لینے کے بعد انہیں لاپتہ کردیا گیا۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندان اپنے پیاروں کی گمشدگی کے باعث عید نہیں مناسکتے کیونکہ ان کے کمانے والوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ سخت مالی تنگ دستی کا شکار ہیں۔ ملک بھر میں عید کی تیاریاں زور و شورو سے جاری ہوتی ہیں، لوگ خریداری اور عیدکی شاپنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔ مگر وہ اپنے پیاروں کی قید میں ہونے کی وجہ سے عید کی تیاریوں سے بھی محروم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کئی سال سے چھوٹی اور بڑی عید کے روز بھی لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ فارم 47 والے بلوچستان اسمبلی میں بیٹھ کر اپنی بس کو "ڈبل اے استاد "کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں