دو ریاستوں کا قیام ہی فلسطین کے مسئلے کا حل ہے، اسحاق ڈار

آستانہ ( آئی این پی ) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل دو ریاستوں کا قیام ہے، 1967سے پہلے کی پوزیشن پر فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت القدس ہو، شنگھائی تعاون تنظیم غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرے،عالمی برادری کو عبوری افغان حکومت سے بات چیت کرنا چاہئیے،ایس سی او ممالک سے تعلقات کا فروغ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے،رکن ممالک کے تعاون سے تمام ممالک ترقی کی منازل طے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او ) کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سینیٹراسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اہم علاقائی فورم ہے اور اس فورم کا قیام انتہائی اہم ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک سے تعلقات کا فروغ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل تمام ممالک کے ایک دوسرے سے تاریخی ثقافتی وسفارتی تعلقات ہیں، اس فورم سے درپیش چیلنجز کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا ایس سی او ممالک سے تعلقات کا فروغ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے، ایس سی او ممالک کے تعاون سے تمام ممالک ترقی کی منازل طے کریں گے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرے۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل دو ریاستوں کا قیام ہے، فلسطین میں 35 ہزار سے زائد معصوم شہریوں کو شہید کیا گیا۔1967سے پہلے کی پوزیشن پر فلسطینی ریاست قائم کی جائے،جس کا دارالحکومت القدس ہو، ایس سی او فورم سے درپیش چیلنجز کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اوروزیر خارجہ کے حادثاتی انتقال پر رنجیدہ ہیں، حکومت پاکستان اور عوام ایرانی حکومت اور عوام کے غم میں شریک ہیں، ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجی مدبر رہنما تھے۔انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماو¿ں نے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اہم کردار ادا کیا، ایرانی صدر کے گزشتہ ماہ دورہ پاکستان کے حوالے سے بہت سی یادیں محفوظ ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی دنیا بھر کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے، ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ امن واستحکام کے لیے مشترکہ ایجنڈا ترتیب دینا ہوگا، گلوبل سیکیورٹی کے لیے اقدامات ضروری ہیں، متنازعہ علاقوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کو اقدامات کرنے چاہیے، جب کہ عالمی برادری عبوری افغان حکومت سے بات کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں