تالا بند بلوچستان

تحریر: عزیز سنگھور

بلوچستان کی عوام اور جرنلسٹس کمیونٹی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کی "تالا بندی” کا واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں اور نہ ہی یہ کوئی انوکھا واقعہ ہے۔ یہ وہی "تالا” ہے جو بلوچ بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کی میت کے تابوت کو لگایا گیا تھا۔ جب اکبر خان بگٹی کی میت ایک پیٹی میں بند کرکے ڈیرہ بگٹی پہنچائی گئی تھی اس وقت کے ڈسٹرکٹ کو آرڈینیٹنگ آفیسر (ڈی سی او) عبدالصمد لاسی نے چیخ کر کہا تھا کہ چہرہ دکھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ مولوی محمد ملوک نے ان کی شناخت کر لی ہے۔ بدنام زمانہ بیوروکریٹ عبدالصمد لاسی نے بتایا کہ لاش کے قریب سے انگوٹھی، عینک، گھڑی اور چھڑی ملی ہے جس کی بنیاد پر ان کی شناخت ہوئی۔

اکبر بگٹی کو ان کے بھائی احمد نواز بگٹی اور بیٹے سلیم بگٹی کی قبر کے ساتھ سرکاری تحویل میں دفنایا گیا۔ ان کی لاش کو لاوارثوں کی طرح دفنایا گیا تھا کیونکہ ان کے خاندان کا ایک بھی فرد موجود نہیں تھا۔ نواب اکبر بگٹی کے بیٹوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کی میت کوئٹہ میں ان کے حوالے کی جائے جہاں ان کے خاندان کے سب افراد موجود ہیں۔ حکومت نے اکبر بگٹی کے ورثائ کے مطالبے کو نظر انداز کردیا۔

بلوچ قوم کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ اس صندوق میں نواب اکبر خان کی جسد خاکی تھی کیونکہ بلوچستان کی عوام کا اعتماد ون یونٹ کے دور سے ریاست پر ختم ہوگیا تھا۔ جب بلوچ بزرگ قومی رہنما نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو بلوچستان کے پہاڑوں سے قرآن شریف رکھ کر معاہدہ کیا تھا۔ اوروہ قرآن شریف کے احترام میں ہتھیار پھینک کر پہاڑوں سے نیچے اترے تو انہیں گرفتار کرکے سندھ کے حیدرآباد جیل میں پھانسی دیدی گئی اور ان کی لاشوں کو لاوارثوں کی طرح جیل سے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ ان کی تدفین تک بھی نہیں کی گئی۔ تاہم حیدرآباد ریاست کے والی "تالپور” بلوچوں نے "بلوچی غیرت” کا مظاہرہ کیا اور لاشوں کی تدفین کی۔

اسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے کراچی ایئرپورٹ لائی گئی تو ان کی میت کو بھی صندوق میں بند کرکے تالے لگادیئے گئے۔ ان کے جسد خاکی کو ان کی فیملی کے حوالے نہیں کیا گیا۔ کراچی ایئرپورٹ کے باہر بلوچ قوم کا ہجوم تھا۔ قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ اپنی قوم کی "بہادر بیٹی” کو "قومی اعزاز” کے ساتھ دفن کرے گی۔ وہ ان کی میت کو کراچی کی قدیم بستی لیاری لے جانا چاہتے تھے جہاں بلوچ عوام اپنی "قومی ہیرو” کا دیدار کرنا چاہتی تھی انہیں "سلامی پیش” کرنا چاہتی تھی۔ دیدار اور سلامی پیش کرنے کے بعد کریمہ بلوچ کے جسد خاکی کو وہ لیاری سے بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے "تمپ” تک ایک قافلے کی شکل میں لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن نہ جانے حکومتی ادارے اس "بچی” کی میت سے اتنا خوفزدہ کیوں تھے؟ جو اس کی میت کو سرکاری تحویل میں کراچی سے تمپ روانہ کردیا گیا۔ جب بلوچ قوم کے فرزندوں کو یہ پتہ چلا کہ بانک کریمہ کی میت کو سرکاری تحویل میں روانہ کیا گیا ہے تو "بلوچ راج” پورے راستے میں اپنی "شہید بیٹی” کو سلامی دینے کے لئے سڑکوں پر آگئی۔ ان پر پھول نچھاور کیے گئے۔ ان کی ایمبولینس کو بوسہ دیا گیا۔ بلوچ قوم کا یہ عمل ایک "زندہ قوم” کی عکاسی کرتا ہے۔ جو قومیں اپنے شہیدوں کو بھول جاتی ہیں وہ قومیں صحفہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔

اٹھارہ مئی 2024 کو کوئٹہ پریس کلب کو اس وقت تالا لگادیا گیا جب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں باڑ لگانے سے متعلق بلوچ یکجہتی کمیٹی پریس کلب میں "گوادر: میگا پروجیکٹ سے میگا جیل تک” کے عنوان سے ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کررہی تھی۔ اس تالا بندی کے خلاف ملک بھر کی صحافی برادری نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ ملک بھر کے صحافیوں کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کی تالا بندی پر احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں پاکستان فیڈرل یونین ا?ف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب کے باہر صحافی سراپا احتجاج رہے۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس نے لاہورپریس کلب پراحتجاجی مظاہرہ کیا۔

کراچی پریس کلب کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی اپیل پر صحافیوں نے یوم سیاہ مناتے ہوئے کراچی پریس کلب کی عمارت پر سیاہ پرچم لہرایا۔ اور کوئٹہ پریس کلب کی بندش کو آزادی صحافت پر قدغن قرار دیا۔

علاوہ ازیں کوئٹہ میں صحافیوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے واک آﺅٹ کیا۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ اور کہا کہ ایسے اقدام آزادی صحافت پر حملہ اور آئین کے آرٹیکل 19 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ صحافی یونین نے اس بات پر زور دیا کہ صحافیوں کو درپیش خطرات اور چیلنجز کے باوجود وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے اور اس طرح کے اقدامات انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتے۔

حالانکہ دیکھا جائے بلوچستان کے صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔ صحافی محفوظ نہیں اور صحافت ا?زاد نہیں اور اب صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ پریس کلب کی بھی تالا بندی کی جاتی ہے جس کی مثال فوجی آمریت میں بھی نہیں ملتی۔

لیکن صحافی برداری نے اپنے "قلم” کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ ان کا یہ قلم "ازار بند” میں ڈالنے کے لئے نہیں اٹھایا ہے۔ بلکہ اپنے قلم سے "لٹریچر” کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ وہی "لٹریچر” ہے جو عوام کو باشعور بناتاہے۔ اور وہی "سیاسی شعور” حکمرانوں اور ان کے اشرافیہ کی موت بن جاتی ہے۔ اب شاید ” گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو” کا وقت آگیا ہے۔ جس کا آغاز کوئٹہ پریس کلب سے ہوچکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں