بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی اندھیرے میں تیر چلانے کے علاوہ کچھ نہیں ، بی ایس او

خضدار(بیورورپورٹ) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چئیرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی اندھیرے میں تیر چلانے کے علاوہ کچھ نہیں شہید سکندر یونیورسٹی کو فعال بنایا جائے جھالاوان میڈیکل کالج کی عمارت کی تعمیر شروع کی جائے قلات ڈویژن میں 622 اور خضدار میں 150 سکولز بند ہیں بلوچستان میں یونیورسٹیوں کو محدود فنڈز ملتی ہے جو تعلیمی ترقی دور کی بات اسٹاف کی تنخواہوں کے لئے نا کافی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا اس موقع پر بی ایس او کے ضلعی و مرکزی عہدیداران عدنان بلوچ اور ماجد بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے بی ایس او کے مرکزی چئیرمین بالاچ قادر بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومتوں کی عدم توجہی اور تعلیمی صورتحال کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیمی ادارے پستی کی جانب جا رہے ہیں جو تعلیمی سہولیات ملک کے دوسرے صوبوں کے طلباء و طالبات کو حاصل ہیں ان سہولیات سے بلوچستان کے طلباء و طالبات محروم ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک کے دوسرے صوبوں نے اپنی ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنائی ہیں مگر بلوچستان میں اب تک اس حوالے سوچا بھی نہیں جا رھا جس کا نا قابل تلافی نقصان صوبے اور قوم کے معماروں کو ھو رہی ہے ایک سوال کے جواب میں بی ایس او کے چئیرمین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کی باتیں لولی پاپ کے علاوہ کچھ نہیں اگر سنجیدگی ھوتی تو سب سے پہلے سکولوں میں اساتذہ کرام کی تعیناتی کو یقینی بنایا جاتا اس وقت صرف قلات ڈویژن میں 622 سکولز بند ہیں ضلع خضدار میں 150 سکولز بند پڑے ہیں بند سکولوں کے قریب رہنے والے ہزاروں طلباء و طالبات تعلیم سے محروم ہیں اس کے علاوہ قلات ڈویژن میں 1600 کے قریب سکولوں میں ایک ٹیچر تعینات ہے دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پورے سکول کو ایک ٹیچر چلائے ایسی صورتحال میں تعلیمی ایمرجنسی اخبارات اور کاغذوں کے علاوہ ہمیں کہی نظر نہیں آتی انہوں نے کہا کہ شہید سکندر یونیورسٹی کی عمارت کب کی تعمیر ہو چکی ہے مگر افسوس یونیورسٹی ایکٹ ابھی تک پاس نہیں ھو سکی اگر یہ یونیورسٹی فعال ہو جائے ہزاروں طلباء و طالبات اس سے مستعفید ہو سکیں گے جھالاوان میڈیکل کالج خضدار کی بلڈنگ کی تعمیر شروع نہیں ھو سکی ڈاکٹروں کو ہاوس جاپ کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں جھالاوان میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات کو ٹرانسپورٹ کی حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے ڈگری کالج خضدار میں ریگولر اساتذہ کرام کی تعداد کم ہیں کالج ہوسٹل کھنڈرات کا منظر پیش کر رھا ہے طلباء کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی خاطر آل پاکستان مطالعاتی دورے پر بھیجا جائے بی ایس کے طلباء کے مستقبل بھی غیر محفوظ ہیں خضدار میں نرسنگ کالج کے طالبات کو ہوسٹل کی سہولیت دستیاب نہیں ہمیں یوں محسوس ہو رھا ہے کہ بلوچستان کو جان بوجھ کر تعلیمی میدان میں پسماندگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی ایمرجنسی کو صرف کاغذزوں تک محدود نہ رکھا جائے اس کے لئے عملی کام کا آغاز کیا جائے بند تعلیمی اداروں میں اساتذہ تعینات کئے جائیں اساتذہ کرام کے لئے جدید ٹریننگز کا بندوبست کیا جائے شہید سکندر یونیورسٹی میں کلاسوں کا اجراء کیا جائے یونیورسٹیوں کے لئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے بلوچستان کے سطح پر ایچ ای سی بنائی جائے ان تمام مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھائیں جائیں تب ہمیں یقین ھو گا کہ بلوچستان میں تعلیمین ایمرجنسی کا آغاز ہو گیا ہے وگرنہ کاغذی باتوں سے مسائل کا حل نا ممکن ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں