نواب بگٹی کی شہادت کا18واں سال
انور ساجدی
چوہدری شجاعت حسین درمیان میں پڑ کر نواب صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کروا رہے تھے۔شروع میں نواب صاحب نے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کیا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے حامی بھری ۔بات چیت آگے جا رہی تھی کہ ایک رات چوہدری شجاعت حسین کی کال آئی کہ مجھے افسوس ہے میں ناکام ہوگیا۔سب کچھ ختم ہونے جا رہا ہے۔ یعنی جنرل پرویز مشرف نے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔یہ جو نام نہاد مذاکرات تھے ان کا مقصد کچھ ضروری وقت حاصل کرنا تھا تاکہ حکومت آخری معرکہ کی تیاری کر لے۔دوسری طرف نواب صاحب بھی آخری قربانی دینے کیلئے تیار تھے۔وہ اپنی مرضی کی موت لانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ میں کبھی سرنڈر نہیں کروں گا۔کبھی گرفتاری نہیں دوں گا کیونکہ یہ مجھے اپنے ملک لے جا کر بے عزت کریں گے۔شادیانے بجائیں گے اور بلوچ کی بے توقیری کریں گے۔جنرل مشرف نے اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح دھوکہ دیا۔بدعہدی کی اور مذاکرات کا ڈھونگ رچایا۔یہ جو مذاکرات ہیں ان کی طویل کہانی ہے۔پہلے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔1948 کو جب شہزادہ کریم بلوچ احتجاجاً افغانستان گئے تو حکمرانوں نے احمد یار پر سخت دبائو ڈالا کہ وہ اپنے بھائی کو واپس بلائیں ورنہ قلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔خان صاحب کے مجبور کرنے پر شہزادہ کریم واپس آئے اور ہربوئی میں مقیم ہوگئے پھر دبائو ڈالا گیا کہ انہیں نیچے اتارا جائے انہیں کچھ کہا نہیںجائے گا لیکن وہ جونہی نیچے اترے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔طویل عرصہ تک جیل میں رکھا اور پھر ایک جعلی جرگہ کے ذریعے 14سال قید کی سزا سنائی گئی۔
دوسری مرتبہ مذاکرات اس وقت ہوئے جب ایوب خان نے1958 میں مارشل لاء لگا کر خان احمد یار کو معہ خاندان گرفتار کرلیا۔خان صاحب کو پہلے لاہور اور بعدازاں راولپنڈی اور ہری پور کی جیلوں میں رکھا گیا۔اس کے خلاف بطور احتجاج نواب نوروزخان پہاڑوںپر چلے گئے۔حکومت نے انہیں نیچے اتارنے کے لئے کئی حربے آزمائے۔آخرکار قرآن کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا چند سرکاری سرداروں کو قرآن دے کر زردک بھیجا گیا۔انہوں نے نوروز خان سے کہا کہ ایوب خان نے ہمیں قرآن دے کر بھیجا ہے اورقسم اٹھائی ہے کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی چنانچہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ نیچے آگئے انہیں گرفتار کر لیاگیا مارشل لاء قوانین کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔انہیں اور ان کے قریبی عزیزوں کو سزائے موت سنائی گئی۔نوروز خان کو 90 سال عمر ہونے کی وجہ سے پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔البتہ چھ عزیزوں کو حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔تحریر کردہ کتابوں کے مطابق پھانسی کے وقت بٹے خان یا سبزل خان نے اپنے گلے میں قرآن باندھ رکھا تھا اور وہ مسلسل کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ قرآن کو بھی پھانسی دو۔
ایک اور مذاکرات 1973 میں میرغوث بخش بزنجو اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہوئے لیکن بھٹو نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا اور بلوچ رہنمائوں کو گرفتار کر کے ان پر حیدرآباد جیل میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہے۔مذاکرات کا ایک اور دور اس وقت ہوا جب راولپنڈی میں اعلیٰ حکمرانوں نے سردار عطاء اللہ مینگل سے کہا کہ آپ اجازت دیں ہم اختر مینگل کو وزیراعلیٰ بنائیں گے۔سنا ہے کہ سردار صاحب نے اس موقع پر کہا تھا کہ بھئی یہ تو بتائو کے مجھے تو9مہینے میں نکالا تھا میرے بیٹے کو کتنے مہینے میں نکالو گے۔یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں مدت پوری کرنے دی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔
مذاکرات کا سب سے اہم اور آخری دور نواب صاحب کے ساتھ ہوا۔انہوں نے حکمرانوں کی نیت جان کر ساحل و وسائل کا نعرہ بلند کیا اس کے ساتھ ہی انہو ںنے اپنے مطالبات بھی پیش کئے جو آئینی تھے۔یہ مطالبات کی دستاویز’’بگٹی ڈوسیزر‘‘ کے نام سے شائع کی گئی تھی جو آج بھی دستیاب ہے۔کوئی بھی مطالبہ پاکستان کے آئین سے ماورا نہیں تھا۔جب بگٹی ایجنسی کے حالات خراب ہوئے تو جنرل پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مذاکرات کا راستہ نکالیں ۔مشرف کا خیال تھا کہ نواب صاحب نے1973 میں کوہلو جیل اور ٹرین کے سفر کے دوران چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الٰہی کو قتل کرنے سے انکار کیا تھا اس لئے چوہدری شجاعت ان کے شکرگزار ہیں اور تب سے ان کے تعلقات اچھے ہیں لہٰذا بات چیت کے لئے وہی موزوں ہیں۔چوہدری شجاعت نے بہت کوشش کی لیکن جنرل پرویز مشرف کی نیت ہی ٹھیک نہیں تھی ۔وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ جب ہم نے بھٹو کو پھانسی دی تو کچھ نہیں ہوا اکبر خان کی موت سے بھی کوئی قیامت نہیں آئے گی۔نواب صاحب کے تراتانی کے پہاڑوں میں جانے سے پہلے پورے ضلع کو حصار میں لے لیا گیا تھا اور کوئی بھی آ اور جا نہیں سکتا تھا۔26اگست کی رات کو یہ حتمی آرڈر جاری کر دیا گیا تھا کہ اکبر خان کا خاتمہ کرنا ہے۔اگلے ہی روز جس طرح کا حملہ ہوا جو کارروائی ہوئی نواب صاحب نے اپنی گلزمین اور’’لمہ وطن‘‘ کے لئے اپنی زندگی کی بازی لگا دی۔خلاف توقع بلوچستان بھر میں احتجاج ہوا لوگوں نے ازخود گھروں سے نکل کر سریاب روڈ کی سرکاری تنصیبات کو آگ لگا دی۔کوئٹہ شہر کرفیو زدہ لگ رہا تھا۔حالانکہ حکومت نے کرفیو نافذ نہیں کیا تھا۔کراچی کے ان علاقوں میں جہاں بلوچ آبادیاں ہیں زبردست گھیرائو جلائو ہوا۔وقتی طور پر تو یہ احتجاج رک گیا لکین مزید نوجوانوں نے پہاڑوں کا رخ کرلیا کیونکہ عظیم قربانی کے بعد اکبر خان شہید محض بگٹی قبیلہ کے سردار نہ رہے تھے بلکہ وہ بلوچ قوم کے لیڈر بن گئے تھے۔اسی دوران واجہ غلام محمد بلوچ میدان میں آئے اور انہوں نے عوام پر واضح کر دیا کہ پارلیمانی اور روایتی سیاست سے بلوچ کو کچھ نہیں ملے گا لہٰذا اس کے لئے ہمہ گیر مزاحمت کی ضرورت ہے۔ان کی اس تحریک میں شیر محمد بلوچ اور لالہ منیر بھی شامل ہوئے تھے کچھ عرصہ بعد جب ملک اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی تو ان تینوں رہنمائوں کو مار کر ان کی مسخ شدہ لاشیں کیچ کے قریب مرغاب کے قریب پھینک دی گئیں۔اس المناک واقعہ نے مزاحمتی تحریک کو مزید مہمیز دی لیکن وہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔اس لئے ریاست کے عوام اور بیرونی دنیا ان حالات سے زیادہ آگاہ نہیں تھی۔اسی دوران جب مسنگ پرسنز کا معاملہ گھبمیر ہوگیا تو ماما قدیر نے ایک پرامن تحریک شروع کر دی۔شہر شہر نگر نگر جا کر سینکڑوں نوجوانوں کی تصاویر لے کر وہ کیمپ لگاتے تھے اور احتجاج پر بیٹھ جاتے تھے۔انہوں نے بچیوں اور خواتین کے ہمراہ ریاست کے پایہ تخت اسلام آباد پیدل مارچ کیا۔کوئٹہ سے کراچی تک مارچ کیا لیکن حکمرانوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے جو اربن اپ رائزنگ دیکھنے میں آ رہی ہے یہ بلوچ تحریک کا تسلسل ہے۔اس میں لوگوں کی غیر معمولی شرکت حیرت انگیز ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔انہیں ان پر کوئی اعتماد نہیں رہا کیونکہ ماضی کے تجربات خوشگوار نہیں ہیں۔بلوچستان کے عوام اپنی بقاء اور تشخص کی وہ جنگ لڑ رہے ہیں جو نواب بگٹی اور نواب خیر بخش مری نے شروع کی تھی۔حالیہ تحریک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عوام اپنے بالادست طبقات پر یقین رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔انہوں نے قبائلی گروہی اور مفادات کے حامل لوگوں کو مسترد کر دیا ہے۔وہ اجتماعی مقصد کی خاطر متحد ہیں ایک قبائلی اور پسماندہ سماج میں عوام کا سیاسی شعور قابل فخر ہے۔جبکہ ان کی دور بینی اور پیش بینی بھی قابل داد ہے۔عوام کو وہ چیزیں نظر آ رہی ہیں جو پس دیوار ہو رہی ہیں اور وہ انسانی فہم سے ماورا تبدیلیوں کا ادراک بھی کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کو ان کے زمینی ساحل و وسائل سے غرض ہے۔زمین پر رہنے والی مخلوق سے نہیں حالانکہ وہ انسان ہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق ہیں اور انہیں اپنی سرزمین پر پرامن طریقے سے جینے کا حق حاصل ہے۔اگر حکمران بضد ہیں کہ وہ اس خطہ کو امن وآتشی کے راستے پر نہیں لے جائیں گے تو اس کا مطلب وہ امن نہیں چاہتے ہیں اور جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں جنگ تو جنگ ہے اس میں تمام فریقین کا نقصان ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔بلوچستان طویل عرصہ سے انسانی المیہ کا شکار ہے شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو متاثر نہ ہو بے شک شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار سب اچھا کہیں اور اپنے مفاد کی خاطر ہر قدم اٹھانے پر تیار ہوں لیکن تاریخ کا فیصلہ اپنا ہوتا ہے۔یہ مسلمہ اصول ہے کہ جنگ کے ناقابل بیان نقصانات ہوتے ہیں لیکن ایک طبقہ کو اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔یہ جنگ کے بینیفشری کہلاتے ہیں یہ ہزاروں انسانوں کے خون بہا کے طور پر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں لیکن یہ فوائد وقتی ہوتے ہیں۔موجودہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہتی۔ تاریخ میں بڑے بڑے نام مٹ گئے تو ان کی کیا حیثیت ہے؟ حکمران طاقت کے زعم میں ہیں اور وہ مظلوم عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں لیکن عوام ہی سب سے بڑی طاقت ہوتے ہیں۔وقتی طور پر میر جعفر اور میر صادق بھی کامیاب ہوتے تھے یا وہ قبائلی سردار انعام و اکرام کا مستحق ٹھہرتے تھے جنہوں نے خان محراب خان کو دھوکہ دے کر انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔نوا ب صاحب کی شہادت کے بعد قلات میں ایک تاریخی جرگہ ہوا تھا جس میں اہم سرداروں نے قسم کھائی تھی لیکن وہ اپنے عہدسے پھر گئے تھے۔یہ جو عام بلوچ اپ رائزنگ ہے یہ اس بد عہدی کے خلاف احتجاج کا ایک نمونہ ہے۔آج بھی حکمرانوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور وہ ایک اندھی سمت کی جانب گامزن ہیں۔وہ ڈائیلاگ کے نام پر مذاق کر رہے ہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے جو مسترد لوگ بات چیت کا راگ الاپ رہے ہیں وہ بھی کسی ٹھوس ایجنڈے سے عاری ہیں۔وقت آگے بڑھ رہا ہے اور یہ لوگ ارتقاء کے سفر میں پیچھے رہ گئے ہیں۔