شام کی لڑائی جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سب سے بڑے انسانی المیے کا سبب بنی،اقوام متحدہ
شام میں نو سال کی خونی اور تباہ کن جنگ کے نتیجے میں کم از کم تین لاکھ 84 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ایک لاکھ 16 ہزار سے زیادہ عام شہری شامل ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزر ویٹری کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شام میں لڑائی دسویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور اب بھی شہریوں کی ہلاکتیں اور معصوم لوگوں کا خون خرابہ جاری ہے۔بلاد شام مارچ سنہ2011 ء کے وسط سے ایک تباہ کن خونی جنگ کا سامنا کررہا ہے۔ 2011ء میں شام میں عوام اپنے جائز اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے حکومت وقت کے خلاف حتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے مظاہرے شروع کردئے۔ مگر جلد ہی یہ احتجاجی تحریک ایک خانہ جنگی کی شکل اختیار کرگئی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔شامی حکومت نے دوسرے اتحادی ممالک کے تعاون سے شام میں اٹھنے عوامی بغاوت کی تحریک کو فوجی طاقت سے کچلنے کی پالیسی اپنائی۔اقوام متحدہ کے مطابق شام کی جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سب سے بڑے انسانی المیے کا سبب بنی۔ ملک کے اندر اور باہر نصف سے زیادہ آبادی کی نقل مکانی اور ھجرت پر مجبور ہوئی۔ شام کی معیشت مزید تباہ ہوگئی۔بنیادی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہوا اور شام کی سرکاری کرنسی لیرہ کی قیمت زمین بوس ہوگئی۔شامی آبزرویٹری جو شام میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ایک مستند ادارہ سمجھا جاتا نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ 15 مارچ 2020ء تک شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں تین لاکھ 84 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک لاکھ 16 ہزار عام شہری شامل ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران 22 ہزار بچے اور 13 ہزار خواتین بھی ہلاک ہوئیں۔حزب اختلاف کے دھڑوں کے کم از کم57000 جنگجو مارے گئے۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز کے تیرہ ہزار جب کہ داعش کے 67 ہزار جنگجو اس جنگ میں منارے گئے۔