ہارڈ اسٹیٹ میں سول سوسائٹی، اپوزیشن، جمہوری اداروں کیلئے جگہ نہیں رہتی، فری اینڈ فئیر الیکشن نہیں ہوتے، ثنابلوچ

ویب ڈیسک : پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوابزدہ جمال رئیسانی کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے جس ”ہارڈ اسٹیٹ“ کا ذکر کیا، اس کا مطلب ہے کہ جتنے بھی دہشتگرد ہوں اور کوئی بھی دہشتگرد تنظیم ہو، بی ایل اے ہو یا بی ایل ایف ہو، ’ان کو ہم دہشتگردوں کی طرح ٹریٹ کریں گے‘۔جمال رئیسانی نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سافٹ اسٹیٹ سے آرمی چیف کی مراد یہ تھی کہ، یہ جو افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہ تنظیمیں درست ہیں اور بلوچوں اور اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جتنے بھی ہم نے آپریشنز کئے ہیں ان میں شاخیں ختم کاٹی ہیں اور جڑوں تک نہیں پہنچے ہیں، اور جڑی افغانستان جیسے مملاک میں ہیں، را کی شمولیت ہے۔جمال رئیسانی نے کہا کہ کل کے جلاس میں یہ طے ہوا ہے کہ جو ہاتھ پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا اس سے ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ ’ہارڈ اسٹیٹ‘ کا کانسیپٹ (خیال) کبھی بھی کثیرالقومی اور کثیر السانی ملکوں میں کبھی کبھی کامیاب نہیں رہا ہے، یہ ان ملکوں میں کچھ عرصے کیلئے کامیاب ہوتا ہے جو ایک لسانی ہوں، جہاں ایک زبان ایک نسل اور ایک طبقے کے لوگ آباد ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ جو لفظ ہے ہارڈ اور سافٹ اسٹیٹ کا، اس کا فیصلہ سیاسی لوگوں یا پاکستان کی پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے تھا، ’کسی نے شاید جنرل صاحب کو ویکیبلری اور ان سب چیزوں کے بارے میں بتایا نہیں ہوگا‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہارڈ اسٹیٹ میں سول سوسائٹی، اپوزیشن، سیاسی جماعتوں، جمہوری اداروں کیلئے جگہ نہیں رہتی، فری اینڈ فئیر الیکشن نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی 50 سے 60 فیصد علامات ہارڈ اسٹیٹ کی موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ سرکاری طور پر اعلان کردیں گے کہ پاکستان ایک ہارڈ اسٹیٹ ہے تو اس کے ملک کیلئے کئی سفارتی اثرات ہوں گے۔