کرونا وائرس کی ابتدا چین سے نہیں ہوئی، عالمی ماہرین
اسلام آباد, شنگھائی فوڈان یونیورسٹی کے ایک مہمان پروفیسر لیری رومانوف نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ نوول کرونا وائرس کا ماخذ ابھی تک معلوم نہیں ہوا ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس وائرس کا آغاز چین سے نہیں ہوا۔پروفیسر رومانوف کا خیال ہے کہ حالیہ مہینوں میں مغربی میڈیا نے چینی شہر ووہان کی سمندری غذا کی مارکیٹ سیمتعلق مختلف رپورٹس تیار کی ہیں اور کہا ہے کہ اس مارکیٹ کو نوول کرونا وائرس کا ماخذ تصدیق کیا گیا۔ لیگن حقیقت میں یہ سباطلاعات غلط ہیں۔رومانوف نے کہا کہ وائرس کی جڑ کو تلاش کرنے کے لئے چینی طبی اداروں نے دنیا کے 12 ممالک سے تقریباً 100سے زائد جینوم کے نمونے اکٹھے کرکیتحقیقات کیں۔ان تحقیقات کے مطابق 2019ء کے نومبر میں ووہان ملٹری ورلڈ گیمز کے فوری بعد وائرس کا آغاز ہوا۔دریں اثنا جاپانی ماہرین نے ایک تحقیقی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وائرس چین میں شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اسے بیرونی طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں متعدی بیماری کے ماہر ڈینیل لوسی نے سائنس جریدے کے ایک مضمون میں کہا کہ اس وائرس کا پہلا انفیکشن نومبر 2019 میں ہونے کی تصدیق ہوگئی تھی اور انفکشن کی جگہ ووہان میں نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وائرس کسی اور جگہ سے شروع ہونے کے بعد ووہان سمندری غذا کی مارکیٹ میں پھیل کیا گیا۔ماہرین نے نوول کرونا وائرس کے جینوم کے نمونوں سے متعلق تحقیق کرنے کے دوران دریافت کیا کہ اس وائرس کی پانچ بنیادی اقسام ہیں اور دیگر وائرس اس سے تیار ہوئے ہیں۔ امریکہ اب تک واحد ملک ہے جس میں یہ پانچ بنیادی اقسام موجود ہیں تاہم ووہان میں صرف ایک ہی موجود ہے۔حال ہی میں ماہرین نے ایران اور اٹلی کے وائرل جینوم کی شاخوں کی تحقیقات کی ہیں جن میں چین کو متاثر کرنے والے جینوم کی شاخ شامل نہیں ہے۔ لہذا یہ یقینی ہے کہ یہ وائرس چین میں شروع نہیں ہوا تھا۔12 مارچ کو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے ٹویٹ پر کہا کہ نوول کرونا وائرس کا چائنہ کرونا وائرس کے طور پر حوالہ دینا بالکل غلط اور نامناسب ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڑاؤ لی جیان نے اسی دن کی شام کو اپنے ٹویٹ پر کہا کہ امریکہ ہماری وضاحت کا پابند ہے۔امریکی امراض قابو پانے اور روک تھام کے مرکز کا ڈائریکٹر روبرٹ ریڈفیلڈ نے 11مارچ کو کہا تھا کہ امریکہ میں نزلہ زکام کی اموات میں نوول کرونا وائرس سے ہونے والی اموات بھی شامل تھی۔امریکی امراض قابو پانے اور روک تھام کے مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ سال کے ستمبر کے اختتام میں پھیلنے والے موسمی نزلہ زکام سیاب تک کم از کم 3 کروڑ 40لاکھ افراد زکام سے متاثر ہوئے ہیں اور تقریباً 3 لاکھ 50ہزار افراد نے ہسپتال میں علاج حاصل کیا۔زکام سے ہلاکتوں کی تعداد 20ہزار تک پہنچ گئی ہے۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے اس سے قبل نوول کرونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام انسانیت کے لئے ایک مشترکہ چیلنج بن گیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک کو مشکلات پر قابو پانے کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے۔