آسٹریلوی سینیٹر کو پارلیمنٹ میں برقعہ پہن کر پابندی کے حق میں احتجاج کرنے پر ایک ہفتے کیلئے معطل کردیا گیا

سڈنی (مانیٹرنگ ڈیسک) آسٹریلوی سینیٹر کو پارلیمنٹ میں برقعہ پہن کر مسلمانوں کے اس لباس پر پابندی کے حق میں احتجاج کرنے پر ایک ہفتے کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پالین ہنسن کو پیر کے روز اس کارنامے پر دیگر سینیٹرز نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور بعد میں رسمی طور پر سرزنش بھی کی گئی، جب کہ ایک ساتھی نے ان پر ’نسل پرستانہ رویہ‘ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ کویینز لینڈ کی یہ سینیٹر مخالف مہاجرین پارٹی ’ون نیشن‘ سے تعلق رکھتی ہیں، ایک بل متعارف کرانا چاہ رہی تھیں جو عوام میں مکمل چہرہ ڈھانپنے والے لباس پر پابندی عائد کرے، اس پالیسی کے لیے وہ طویل عرصے سے مہم چلا رہی ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے جب انہوں نے پارلیمنٹ میں یہ لباس پہنا تھا، جو چہرہ اور جسم دونوں کو ڈھانپتا ہے، اور انہوں نے کہا کہ ان کے اقدامات اس لیے تھے کیونکہ سینیٹ نے ان کا بل مسترد کر دیا تھا۔ دوسرے قانون سازوں نے پیر کے روز ان کا بل متعارف کرانے سے روکنے کے فوراً بعد وہ سیاہ برقعہ پہن کر واپس آئیں۔ مسلم گرینز کی سینیٹر مہِرین فاروقی نے کہا کہ یہ نسل پرست سینیٹر ہیں، جو بظاہر نسل پرستی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گزشتہ سال وفاقی عدالت نے مہرین فاروقی کو ہنسن کی جانب سے نسلی امتیاز کا شکار قرار دیا تھا، جس فیصلے کے خلاف ہنسن اس وقت اپیل کر رہی ہیں۔ ویسٹرن آسٹریلیا کی آزاد سینیٹر فاطمہ پیمن نے اس حرکت کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔ وزیر خارجہ پینی وونگ (جو سینیٹ میں حکومت کی رہنما بھی ہیں) نے منگل کو ہنسن کی سرزنش کے لیے ایک قرارداد پیش کی، اور کہا کہ وہ دہائیوں سے تعصب کو احتجاج کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں۔ یہ قرارداد 55 ووٹوں کے مقابلے میں 5 ووٹوں سے منظور ہوئی، اور اس میں کہا گیا کہ ہنسن کے اقدامات لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنانے اور مذاق اڑانے کے لیے تھے اور مسلم آسٹریلیوی شہریوں کی بے ادبی تھی۔ وونگ میں پہلے دلیل دی گئی کہ ہنسن ’آسٹریلوی سینیٹ کی رکن بننے کے قابل نہیں ہیں‘۔ فیس بک پر ایک پوسٹ میں ہنسن نے لکھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اسے نہ پہنوں تو برقعہ پر پابندی لگا دو۔ انہوں نے پہلے 2017 میں پارلیمنٹ میں برقعہ پہنا تھا اور اس وقت بھی قومی سطح پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ 2016 میں ہنسن کو آسٹریلوی سینیٹ میں اپنی پہلی تقریر پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک ’مسلمانوں کی بھرمار‘ کے خطرے میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں