آؤ مل کر ہاتھ اٹھائیں

تحریر: انور ساجدی
چین کرونا وائرس کے مالی و معاشی نقصانات کا بہت جلد ازالہ کر سکتا ہے لیکن سماجی اعتبار سے اسے جو نقصان پہنچا ہے اس کے ازالہ کیلئے کافی وقت درکار ہے جب ووہان کرونا کا مرکز بنا تھا تو ساری دنیا نے چین کا معاشی اور سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا لیکن دو ماہ کے اندر کرونا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس وقت اکثر ممالک لاک ڈاؤن ہیں اور ان کے وسائل اتنے نہیں کہ وہ تاریخ کی اس سب سے بڑی وباء کا مقابلہ کر سکیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق برطانیہ عظمیٰ نے اعلان کیا ہے کہ لوگ گھروں کے اندر رہیں اگر کسی میں بیماری کے آثار بھی پائے جائیں تووہ ہسپتالوں میں جانے سے گریز کریں اور گھر میں تنہائی اختیار کریں اٹلی یورپ میں کرونا کے پھیلاؤ کا مرکز ہے ا سکے وسائل بھی انگلینڈ کے برابر ہیں لیکن اس نے اپنی چھ کروڑ آبادی کو عملاً قرنطینہ میں رکھا ہے پورا ملک بند ہے اور روزانہ دو سو کے قریب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ایشیاء میں چین کے بعد ایران دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور وہ اس وقت بے بسی سراسیمگی کا شکار ہے عالمی بائیکاٹ کی وجہ سے وہاں ادویات کی کمی ہے اور دیگر طبی آلات بھی بہت کم ہیں پاکستان پر کرونا کی جو تباہی آئی ہے وہ ایران کی وجہ سے ہے کیونکہ ایران نے ہزاروں زائرین کو ٹیسٹ کئے بغیر پاکستان جانے دیا جبکہ تفتان بارڈر پر بھی ٹیسٹ کی مناسب سہولتیں نہیں تھیں وفاق کا یہ فیصلہ کہ ہزاروں زائرین کو آنے دیا جائے غلط اور تباہ کن فیصلہ تھا یہ زائرین صرف ایران میں مقیم نہیں رہے بلکہ عراق اور شام سے بھی آئے تھے عراق نے بدترین صورتحال کے پیش نظرکرفیو لگا دیا ہے جبکہ جنگ زدہ شام میں صحت کی سہولتیں پہلے سے ناپید ہیں جو زائرین شام گئے تھے ان میں سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو ادلب میں شامی فورسز کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل تھے چند روز قبل یہ اطلاع آئی تھی کہ ادلب پر ترکی نے جو بمباری کی اس میں 50پاکستانی ہلاک ہوئے تھے اس سے قبل کافی پاکستانی داعش کے ساتھ شام کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔
اس سے ایک خیال ذہن میں آتا ہے کہ جو زائرین ایران‘ عراق اور شام جاتے ہیں ان کو ان کی مرضی کے مطابق اور تعداد کو دیکھے بغیر کیوں جانے دیا جاتا ہے ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس طرح حج کا کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے زائرین کی تعداد کا بھی تعین کیا جاتا جو لوگ ان ممالک جانا چاہتے ہیں کوئی ایسا انتظام ہوتا کہ وہ باقاعدہ وفاقی حکومت کو درخواست دیتے اور وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ان کو جانے کی اجازت دی جاتی مگر افسوس کہ آج تک کسی وفاقی حکومت نے کوئی ایسا انتظام نہیں کیا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے کوئٹہ سے تفتان تک کئی مرتبہ زائرین کی بسوں کو بدترین حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا لیکن نہ وفاقی حکومت نے پرواہ کی اور نہ ہی زائرین نے اس سے سبق سیکھا بلکہ ان حملوں کے بعد زائرین کی تعداد بڑھتی گئی ان کے قافلے لوگوں پر مشتمل تھے جو کئی ہزار کلو میٹر کا سفر کر کے عراق‘ شام اور ایران جاتے کسی حکومت نے بھی کوئی حساب کتاب نہیں رکھا دنیا میں شائد ایسا ایک ملک ہو جو پاکستان ہے یہاں پر ایک طرف سوسائٹی کے ایک طبقہ پر قوانین کا سخت ترین نفاذ ہے دوسری طرف مکمل آزادی ہے ایک اور المیہ یہ ہوا کہ صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا خود تفتان گئے اس وقت تک بارڈر بند تھا انہوں نے اس کے کھولنے کے احکامات دیئے حالانکہ یہ وزارت داخلہ کا کام تھا انہوں نے پہلے کہا کہ زائرین کو 14 دن تک قرنطینہ میں رکھا جائیگا لیکن کسی نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا بلکہ ڈھائی ہزار زائرین وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے پھر صوبائی حکومت کو وفاق نے مجبور کیا کہ متاثرین کو کوئٹہ میں رکھا جائے لیکن میاں غنڈی میں ٹینٹ لگائے گئے یہ ایک مذاق تھا کیونکہ قرنطینہ کبھی ٹینٹ میں قائم نہیں ہوتا سوشل میڈیا نے یہ بھی دکھایا کہ متاثرین نے فائر کیمپ لگایا کھلے عام سجی بنائی اور وباء کے پھیلاؤ کا مکمل انتظام کیا۔
اب تک جتنے مریض سندھ اور پنجاب میں ظاہر ہوئے ہیں وہ سارے ایران سے آئے تھے لاہور میں تو ایک مریض فوت بھی ہو گیا ہے جو کرونا سے پہلی موت ہے کرونا کے تدارک کے لئے سب سے گھٹیا انتظامات پنجاب حکومت نے کئے ہیں جس کے وسائل سب سے زیادہ ہیں ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اور وفاق سو رہے تھے اور انہیں وباء کی تباہ کاری کا ادراک نہیں تھا اگرچہ سندھ نے سب سے زیادہ انتظامات کئے ہیں لیکن وہاں پر پھیلاؤ کا خطرہ بھی زیادہ ہے صرف سکھر میں ایران نے آنے والے 150 ائرین وائرس میں مبتلا پائے گئے عالمی ادارہ صحت نے پہلی مرتبہ سندھ حکومت کی تعریف کی ہے لیکن یہ تعریف وباء کے تدارک کیلئے معاون ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ایران سے آنے والے بیشتر زائرین کا تعلق سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی سے ہے کراچی ناقابل یقین حد تک گنجان آباد شہر ہے وہاں پر کسی بھی وباء کے پھیلنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے جبکہ بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت بھی علاج و معالجہ کیلئے کراچی جاتی ہے اس لئے اس پر دباؤ بہت زیادہ ہے اگر یہ وباء کراچی میں پھیل گئی تو اس پر قابو پانے کیلئے بہت وقت لگے گا اور بہت وسائل کی ضرورت ہوگی خدا کرے کہ بلوچستان میں مریضوں کی تعداد زیادہ نہ بڑھے ورنہ سارے لوگ کراچی جانے پر مجبور ہوں گے ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ ہزارہ ٹاؤن میں جو زائرین آئے تھے انہوں نے غالباً اپنا ٹیسٹ نہیں کروایا اور یہ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ وہاں کا سروے کرے اور لوگوں کو قائل کرے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اصل صورتحال سے حکومت کو آگاہ کریں ورنہ پور اشہر ایک دم سے لپیٹ میں آ جائیگا۔
بلوچستان میں جو چار ہسپتال ہیں ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ مریضوں کی اتنی بڑی تعداد سے نمٹ سکے جام صاحب نے یہ گلہ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے جو برق رفتار اقدامات کئے ہیں انہیں سراہنے کی بجائے تنقید کی جا رہی ہے اگرچہ ان کی بات صحیح ہے لیکن تنقید کا موقع اس وقت ملا جب صحت کے عملہ نے پرانے دستانے اور ماسک فراہم کر دیئے جو 8 سال پرانے اور ناکارہ تھے آج تک اس کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل نے ہدف بنایا اپوزیشن کا کام یہی ہے کہ وہ حکومت کی رہنمائی کرے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت کا عجیب فیصلہ ہے کہ چین میں جو ہزاروں طالب علم مقیم تھے انہیں لانے سے انکار کیا گیا لیکن بارڈر کھول کر ہزاروں افراد کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی جو اپنے ساتھ کرونا وائرس بھی لے آئے کہا جاتا ہے کہ اگر طلباء کو لایا جاتا تو چین ناراض ہو جاتا چلیں اچھی بات ہے لیکن ریاست کیلئے اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت مقدم ہونی چاہئے چین کو خوش رکھنا ضروری ہے تو اس کے اور بہت سارے طریقے ہیں جیسے کہ صدر عارف علوی کی قیادت میں ایک وفد چین جا پہنچا اور یہ پہلا غیر ملکی وفد ہے جس نے وائرس کے عروج میں چین کا دورہ کیا اس سے بڑی یکجہتی اور کیا ہو سکتی ہے پاکستان نے تو چین سے پروازیں بھی بند نہیں کیں جبکہ ساری دنیا نے اس کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
اس مہینے کے آغاز مین لندن میں وہاں کے لوگ چینی باشندوں کو دیکھ کر راستہ بدلتے تھے جبکہ ہزاروں چینی ریستورانوں میں جانے سے گریز کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے سارے بند ہو گئے نہ صرف برطانیہ بلکہ ساری دنیا میں چینی کھانوں کا بائیکاٹ جاری ہے کرونا سے پہلے دنیا بھر میں چینی کھانے بہت مقبول تھے لیکن اب بہت عرصہ تک لوگ چینی کھانوں سے دور بھاگیں گے یہ ایک طرح سے مالی نقصان ہے لیکن یہ دراصل سماجی نقصان ہی ہے ویسے بھی رفتہ رفتہ یورپ اور امریکہ میں انڈین کھانے زیادہ مقبول ہونے لگے تھے اگر آپ واشنگٹن ڈی سی جائیں تو عین کیپٹل ہل کے باالمقابل آپ کو دور سے تاج محل ہوٹل نظر آئیگا سینٹرل لندن کے علاقہ بیز واٹر میں درجنوں انڈین پاکستانی ریستوران ہیں جہاں گورے مزے لے کر مختلف کھانے کھا رہے ہوتے ہیں کرونا کے بعد انڈین فوڈ کی ڈیمانڈ زیادہ بڑھ جائیگی اور سارے گورے دال اور سبزیاں مزے لے کر کھائیں گے چین کی اس وقت جو صورتحال ہے اس کا فائدہ انڈیا اٹھا سکتا تھا لیکن مودی نے اپنے ملک کو خانہ جنگی کا شکار کر دیا ہے جبکہ کرونا بھی وہاں پر تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے انڈیا ایک ارب 30کروڑ آبادی کا ملک ہے اگر وہاں پر کرونا تیزی کے ساتھ پھیل گیا تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو گا اور لوگ چین‘ اٹلی اور ایران کو بھی بھول جائیں گے سنا ہے کہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں واقع اپنے کارخانے بند کر دیئے ہیں اور وہ دوبارہ چین جانا نہیں چاہتے اگر وہ بھارت نہ گئے تو ان کا رخ بنگلہ دیش کی طرف ہو جائیگا جس کی شرح ترقی اس وقت ساری دنیا سے زیادہ ہے جبکہ وہاں پر امن و آشتی کی صورتحال بھی سارے ایشیاء سے زیادہ ہے بنگلہ دیش کے بعد دوسرا چوائس لازمی طور پر ویت نام ہو گا جو ترقی کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے اگر پاکستان کے حالات بہتر ہوتے تو کچھ کمپنیاں یہاں بھی آ سکتی تھیں لیکن پاکستان اس خطے کا مختلف ترین ملک ہے اس لئے غیر ملکی سرمایہ کار یہاں آتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ مولانا طارق جمیل کے ذریعے دعائیں کرائیں کہ کرونا جلد ختم ہو اور عالمی کمپنیاں پاکستان کا رخ کریں طارق جمیل اور دیگر علماء کی دعاؤں سے کرونا تو ختم ہونے کی بجائے مزید پھیل رہا ہے ہو سکتا ہے کہ ان کی دعاؤں سے یہود و نصاریٰ کی کمپنیاں یہاں کا رخ کریں جس سے خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں