کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ڈبل بنانے کے لئے لانگ مارچ جاری، پاؤں زخمی، عزم بلند

خضدار:کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ڈبل وے بنانے کے لئے بلوچستان کے نوجوانوں کی طویل ترین لانگ مارچ جاری۔700کلومیٹر طویل لانگ مارچ کرنے والے قافلے کی قیادت تعلیم یافتہ نوجوان نجیب یوسف زہری کررہے ہیں۔ اوران کے ساتھ قافلے میں محمد آصف زہری، بسم اللہ بلوچ، محمد آصف بنگلزئی، محمد ایوب رند، نجیب بنگلزئی، محمد عمرزہری ودیگر شریک ہیں۔ جدوجہد پر یقین رکھنے والے ان نوجوانوں کا لانگ مارچ قافلہ رواں مہینے کے 13تاریخ کو کراچی سے کوئٹہ کے لئے رخت سفر باندھ چکا ہے۔ 18مارچ بروزِ بدھ کو پیدل چل کر لسبیلہ تک رسائی حاصل کرچکاہے۔جو روزانہ نو سے دس گھنٹے سفر کرکے پینتیس سے چالیس کلومیٹر سفر طے کرتے ہیں۔ طویل کٹھن سفر کی وجہ سے ان نوجوانوں کے پاؤں میں زخم بھر آیا ہے ٹانگیں شل ہوچکی ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں پیدل سفر کی وجہ سے پاؤں میں زیادہ چھالے پڑنے اور تکلیف محسوس کرنے کی وجہ سے دو ساتھیوں کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ پیدل لانگ مارچ قافلے کے سرخیل وجذبہ رکھنے والے نوجوان نجیب یوسف زہری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک در د لیکر اتنامشکل طویل لانگ مارچ کاآغاز کرچکے ہیں یہ تمام صعوبتیں اور مشکلات جھیلنے کی یہی ایک وجہ ہے کہ اربابِ اختیا ر اور وفاق میں بیٹھے اقتدار پر براجمان حکمرانوں کی توجہ بلوچستان میں شاہراہوں پر گرتے زخم کھاتے اور جان دیتے مسافروں کی حالت یہاں کے عوام کی بے بسی کی جانب مبذول کرائی جائے۔اس لیئے ہم مجبور ہو کر یہ اقدام اٹھاچکے ہیں اور سات سو کلومیٹر سے زائد طویل مسافت طے کررہے ہیں۔تاکہ حکمرانوں کی ضمیر جاگ جائے، ان کو بلوچستان کے عوام پر رحم آجائے اور اس شاہراہ کو ڈبل وے بنانے کے منصوبے کا آغاز ہو۔ نجیب یوسف زہری کا کہنا تھا کہ اخبارات اور نیوز چینلز کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال یعنی بارہ مہینوں کی مدت میں اس شاہر پرکم و بیش 800حادثات رونماء ہوتے ہیں اور ایک سال میں کم و بیش 8000لوگ جاں بحق وزخمی ہوجاتے ہیں۔آج کل کرونا بیماری کا چرچا ہے اور پوری دنیاء میں اس کا ذکر جاری ہے اور اس سے خوف دلایا جارہاہے اور اس کے لئے حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے تمام دنیاء کے اعداد شمار کو لیکر گنتی کی جائے تو کرونا مرض سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئے جتنے کوئٹہ کراچی شاہرا پر روڈ ایکسیڈنٹ میں لوگوں کی جانیں ضائع ہوگیں اور ہزاروں لوگ اپاہج بن کر صاحب فراش بن چکے ہیں۔ نجیب یوسف زہری کا کہنا تھاکہ اس روڈ پر میں خود حادثے کا شکار ہو کر زخم کہا چکا ہوں اور مجھے علم ہے کہ ایک جان کی اپنے ہل و عیال میں کتنی قیمت ہوتی ہے۔ ہم سے ان حادثات کے نتیجے میں اچھے سیاستدان، آفیسرز، پروفیسرز، ڈاکٹرز اور عام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد رخصت ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم جہاں سے گزر رہے لوگوں کی ہمیں پذیرائی مل رہی ہے کہ جس مقصد کے لئے ہم نکلے ہیں وہ مقصد فوری طور پر پورا ہوا اور یہ شاہراہ ڈبل وے بن جائے۔ دیگر صوبوں میں موٹروے بن رہے ہیں، وہاں تیررفتار ترقی جاری ہے،ہم موٹروے نہیں چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہماری شاہراہ ڈبل وے ہو یہی ہمارے لئے غنیمت ہے لیکن وہ سہولت بھی ہمیں نہیں مل رہی ہے۔حکمران بلوچستان کے عوام پر رحم کھاتے ہوئے قومی شاہراہ کو دو رویے بنانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں،سالوں مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں اس عوامی پراجیکٹ کا آغاز ہوتاکہ لوگوں کی جانوں ضائع ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے اور روڈ حادثات میں کمی لائی جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں