سانحہئ بلدیہ گارمنٹ فیکٹری(کراچی)
استغاثہ کے مطابق 11ستمبر2012میں ایم کیو ایم کے عہدیداروں کی جانب سے بلدیہ کراچی میں واقع ایک گارمنٹ فیکٹری کے مالکان سے 25کروڑ روپے بھتہ طلب کیا گیا۔ نہ دینے پر انہیں خوفزدہ کرنے اور شہر میں دہشت پھیلانے کے لئے دو ملزمان زبیر چریا اور رحمٰن بھولا نے کیمیکل چھڑک کرفیکٹری کو آگ لگا دی۔اس کے نتیجے میں فیکٹری میں موجود264افراد جل کر ہلاک اور60زخمی ہو گئے۔جلنے والوں کی لاشیں کوئلہ بن چکی تھیں اور شناخت کے قابل نہیں رہیں۔قاتلوں نے فیکٹری کے دروازوں پر تالے لگا کر بند کر دیا تھا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پرزبیر چریا اور رحمٰن بھولا کو 264بار سزائے موت اور 60افراد کو زخمی کرنے پر 10،10سال قید کی سزا سنائی ہے۔4ملزموں کو بری کردیا اور 2مفرور ہیں ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے دائمی وارنٹ جاری کر دیئے اور4چوکیداروں کو کیمیکل فیکٹری کے اندر لے جانے میں سہولت کاری کے جرم میں جیل بھیج دیا۔ فیصلہ ارتکاب جرم کے 8سال بعد سنایا گیاسپریم کورٹ تک انہیں اپیل کا حق حاصل ہے۔اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔قاتل اتنے با اثر ہیں کہ 6سرکاری وکلاء نے دھمکیاں ملنے پر مقدمہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور 4سیشن ججز نے سماعت سے معذرت کر لی تھی۔ ایسے ماحول میں 8سال بعد مجرموں کو سزائے موت اور دیگر سزائیں سنانا بھی قانونی لحاظ سے مثبت پیش رفت سمجھی جانی چاہیئے۔ورنہ حال ہی میں بلوچستان کی ایک با اثر شخصیت نے ایک حاضر ڈیوٹی ٹریفک سارجنٹ کو اپنی تیز رفتار گاڑی سے ٹکر مار کر قتل کردیا تھااس واردات کی ویڈیو تمام ٹی وی چینلز نے بار بار دکھائی جس میں بااثر شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ڈیوٹی پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے یہ منظر خود دیکھا ہے۔بااثر شخصیت نے مقتول کے ورثاء سے معمولی رقم بطور دیت دے کر جاں بخشی کرائی۔یہ معافی نامہ بجائے خود اعتراف جرم ہے مگر عدالت سے وہ شخص بری ہوچکا ہے۔ پولیس اپنے مقتول پیٹی بند بھائی کو عدالت سے سزا نہیں دلوا سکی۔حالات خود بول رہے ہیں۔لاقانونیت کے سامنے قانون بے بس ہے۔قانون لاغر ہے اسے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے بے شمار بے ساکھیوں کا سہارا چاہیئے۔ مقننہ کے پاس ابھی فرصت نہیں کہ بااثر افراد کی سرکوبی کے لئے قانون سازی کرے۔ Justice delayed is justice deniedوالامحاورہ ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے۔فی الحال Justice hurried is justice buriedوالا محاورہ زبان زدعام ہے۔ برسوں بااثر ملزم پر فرد جرم عائد نہیں کی جاسکتی۔نیب کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالتیں مقررہ تاریخ پر فرد جرم عائد کرنے کی بجائے آئندہ کی کوئی تاریخ دیتی ہیں۔بااثر ملزم کا چہرہ خودایک قسم کے فیصلے کا یقین رکھتا ہے پر سکون ہوتا ہے۔ جسٹس ملک عبدالقیوم اور ارشد ملک جیسے ججز کے فیصلے ملزموں سے ڈکٹیشن لے کرجبکہ عدلیہ کے وقار پر سمجھوتہ نہ کرنے والے ججز مشکل ترین حالات میں بھی قانون کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں ملزم ان کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد چند روز پہلے نشاندہی کر چکے ہیں کہ ابھی خود مختار ججز کی کمی ہے۔دوسری جانب ایم پی اے کے شوہر اتنے خود سر ہیں کہ معزز جج پر ہاتھ اٹھاتے دیکھے جاتے ہیں۔اکثر اوقات وکلاء کا رویہ بھی قابلِ رشک نہیں ہوتا۔گویا خرابی ریشمی ڈور کی طرح الجھی ہوئی ہے،سرا تلاش کرنا آسان نہیں۔مافیاز کے سامنے حکومت بے بس ہے۔صرف نوازشریف اکیلے لندن میں مقیم نہیں۔ جہانگیر ترین بھی عدالتوں کو پیغام بھیج رہے ہیں ابھی علاج کرا رہا ہوں،صحت مند ہوتے ہی آجاؤں گا۔ ایک کے وارنٹ کی تعمیل کے لئے سفارت خانہ سرگرم ہے دوسرے کے لئے ایسی کوئی کارروائی ابھی شروع نہیں ہوئی۔ اچھا ملزم، برا ملزم والا کھیل جاری ہے۔عام آدمی دہائیوں سے یہی کچھ ہوتا دیکھ رہا ہے۔شائد اس کا عادی ہو گیا ہے یا اسے دیگر مجبوریاں ادھر دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ مہنگائی تھمنے میں نہیں آرہی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سبب گیس کے پریشر میں کمی بتایا جا رہا ہے۔گھروں کے مکین اوردکاندار یکساں چیخ رہے ہیں۔ 10سے15گھنٹے تک بجلی کا جانا مستقل روگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔بچے، بوڑھے سب پریشان ہیں۔ گیس کی کمی سے گھریلو خواتین کے لئے کھانا پکانا ممکن نہیں رہا۔ وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان بہتان تراشی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ عوام پس رہے ہیں۔ مسیحا کی تلاش میں ہیں لیکن دور دور تک کوئی مسیحا نظر نہیں آتا۔سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں سب آزمائے ہوئے چہرے شامل ہیں۔وہی گھسے پٹے نعرے، وہی پرانے دعوے سنائی دیتے ہیں۔ عوام کو کوئی نیا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا۔یہی وجہ ہے کہ عوام اپنی دال روٹی کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ چھ سات مہینے بعد اسکول کالج کھلے ہیں، والدین کتابوں کی خریداری کے ساتھ فیسوں کی ادائیگی کے لئے پریشان ہیں۔ پریشانی دو چند ہو گئی ہے جبکہ حکومت اسکول اور کالج کھولنے کی اطلاع کوہی اپنا بڑا کارنامہ سمجھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں چاروں طرف افراتفری مچی ہو، عابد جیسا ملزم گرفتار نہ ہو،اس کے سامنے پنجاب پولیس بے بس دکھائی دے۔وہاں 8سال بعد بلدیہ کی فیکٹری میں 264 ملازمین کو جلا کر قتل کرنے والے دو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ کم از کم یہ نوید تو دیتا ہے کہ آنے والا کل گزشتہ کل سے بہتر ہوگا۔ مایوسی گہری تو نہیں ہوتی۔دو مجرم انجام کو پہنچیں گے، متأثرین کو کچھ تو سکون ملے گا۔حالانکہ اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔