ذاتی ملاقات کو سیاسی رنگ دینا فوج کے ترجمان کا کام نہیں: مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاکستان فوج کے ترجمان کا کام سیاسی معاملات سے متعلق بیانات دینا نہیں بلکہ وہ صرف ملکی سالمیت سے متعلق اہم بات کرنے کے پابند ہیں۔
پیر کو پارٹی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ‘لیگی رہنما محمد زبیر اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی 40 سالہ دوستی کی بنیاد پر ہونے والی ذاتی ملاقات کے دوران گفتگو کے ایک مخصوص حصے کو میڈیا کے ذریعے غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔’
انہوں نے کہا کہ ‘شہباز شریف کی گرفتاری حکومتی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے لیکن حکمران یہ جان لیں کہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد ہوگا اور اب نواز شریف خود ن لیگ کی سیاسی تحریک کی قیادت کریں گے۔’
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ‘اگر کرپشن کے خلاف کارروائی کا شوق ہے تو سابق آئی ایس پی آر ترجمان اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ ان کے معاملہ پر وزیر اعظم اور نیب خاموش کیوں ہیں؟’
مریم نواز نے مزید کہا کہ ‘عاصم سلیم باجوہ کے معاملے پر عدالتوں کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔’ ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے ڈیٹا کیسے غائب ہوا؟ الٹا اس پر سٹے لیا گیا، عدالتیں سب دیکھ رہی ہیں، ججز کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن جو ججز نڈر ہوتے ہیں، ان کا قاضی فائز عیسیٰ جیسا فیصلہ آجاتا ہے۔’
انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر عاصم سلیم باجوہ کے خلاف عدالت از خود نوٹس نہیں لیتی تو پی ڈی ایم اور اے پی سی میں معاملہ لے کر جائیں گے۔ ‘اگر شہباز شریف کا کچھ ثابت نہیں ہوتا تو 99 فرنچائز کھولنے پر کیوں ایکشن نہیں لیا جاتا؟’
مائنس نواز اور مریم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘ن لیگ سے میم، شین نکالنے والے یہ تقسیم کبھی نہیں دیکھ سکیں گے، 40 سال سے یہی سنتی آرہی ہوں۔ شہباز شریف کا مصالحتی سیاست سے متعلق اپنا نظریہ ضرور ہے لیکن وہ نواز شریف کے فیصلوں پر ہمیشہ سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ شہباز شریف اور نواز شریف کا بیانیہ الگ الگ نہیں۔ اداروں کے لوگ باتیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ہمارا احتجاج کا روڈ میپ بن چکا ہے اور پارٹی محنت کررہی ہے۔’
اپنے والد کی بیماری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ‘نواز شریف کی سرجری ہونا باقی ہے، لیکن وہ جلد واپس آئیں گے اور پارٹی کو لیڈ کریں گے۔ جو سوچتے تھے کہ نواز شریف کو سیاست سے نکال دیا اب وہ ہاتھ ملتے رہ گئے ہیں۔’
مریم نواز نے بتایا کہ ن لیگ کے پاس صرف اسمبلیوں سے استعفے کا نہیں بلکہ لانگ مارچ کا بھی آپشن موجود ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘ اے پی سی کے فیصلوں کے لیے شہباز شریف، مریم نواز یا کسی رہنما کو گرفتار کریں تحریک رکنے والی نہیں ہے۔ تحریک پورے جذبے کے ساتھ چلے گی۔’
مریم نواز نے کہا کہ ‘کفر کی حکومت چل سکتی ہے، ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی۔ سقوط کشمیر پہلی بار ہوا، پہلی بار اتنی مہنگائی، پہلی بار اپوزیشن کا کریک ڈاؤن ہوا۔ ہر گناہ کے بعد حکومتی اراکین احتساب سے بالاتر ہیں اور اب شہبازشریف کو گرفتار کیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘شہباز شریف کو سزا اور عدالتوں کے چکر لگوائے گئے۔ ان کی فیملی اور بیٹیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ نیب کو بی آر ٹی، بلین ٹری درخت، وزرا کی کرپشن یا عمران خان کا گھر یا جہانگیر ترین نظر نہیں آتا؟ شہباز شریف پر بھائی کا ساتھ دینے پر ظلم کیا گیا اور نوازشریف اور پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھانے پر سزا دی گئی۔’
مریم نواز کی پریس کانفرنس کے موقعے پر احسن اقبال، پرویز رشید، مریم اورنگزیب، رانا ثنا اللہ، تہمینہ دولتانہ اور دیگر لیگی رہنما بھی ماڈل ٹاؤن میں واقع مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں موجود تھے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت کافی رنجیدہ اور غصے میں دکھائی دی جبکہ خلاف معمول ہال میں بھی زیادہ شور شرابہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزا د اکبر نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘نیب کے ریفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے اور جعلی اکاؤنٹس سے فائدہ اٹھانے کے براہ راست الزامات ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘شواہد کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کی، لہذا عدالتی معاملات کو سیاسی رنگ دینا توہین عدالت ہو گا۔’
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آج شہباز شریف اور ان کی پارٹی قانونی جنگ ہار گئی، مریم نواز کی پریس کانفرنس مکمل فرمائشی پروگرام تھا، ان کی پریس کانفرنس ان کے چچا کے خلاف چارج شیٹ تھی۔ ‘مریم نواز نے تسلیم کرلیا کہ ان کے چچا مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں لیکن وہ مفاہمت کی سیاست نہیں کرتیں۔’
سینیٹر شبلی فراز نے بھی شہباز شریف کی گرفتاری کو عدالتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘اس معاملے کو سیاسی مقدمہ نہ بنایا جائے۔’ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری ہونا ہی تھی کیوں کہ ان کے خلاف واضح ثبوت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری کی ایک وجہ ان کا عدالت کو مطمئن نہ کر پانا ہے، ان سے جو سوال پوچھے گئے ان کا جواب نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اثاثوں کے ذرائع بتا دیے جائیں تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ ‘یہ کسی ادارے کے سامنے پیش ہونا اپنی ہتک سمجھتے ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا۔’