دس دن بعد دو چوریوں کے انکشاف کی پیش گوئی

سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون پارلیمانی اموربابر اعوان یہ پیش گوئی کس برتے پر کر رہے ہیں کہ آٹھ سے دس دن بعد ملکی تاریخ کی دو بڑی چوریوں کا حیران کن انکشاف ہو گا؟ انہیں اپنا سورس بھی بتانا چاہیئے تھا۔ اگر چور پکڑا گیا ہے تو اس کی گرفتاری کوچھپانے کی وجہ کیا ہے؟معاونین اور مشیران کی یہ بے صبری کیس کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔علاوہ ازیں اس قسم کے اعلان متعلقہ محکمہ خود کیوں نہیں کرتا؟متأثرہ فریق کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ یہ کیس حکومت نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنوایا ہے۔پھر برسوں کیس کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، کھودا پہاڑ جاتا ہے اور اس میں سے برآمد صرف چوہا ہوتا ہے۔پانامہ لیکس سے کیس شروع ہوتا ہے اور سزا اقامہ ڈکلیئر نہ کرنے پر سنائی جاتی ہے۔مانا کہ اقامہ ڈکلیئر نہ کرنا بھی قانون کی نظر میں جرم ہے مگر پانامہ لیکس کے مقابلے میں اس کی بہت معمولی حیثیت ہے۔بابر اعوان ایک سیاستدان ہونے کے علاوہ معروف وکیل بھی ہیں انہیں ان نزاکتوں کا علم دوسروں سے ہونا چاہیئے۔ویسے بھی چوریوں کے انکشاف کا سلسلہ 2014بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل کی داستانیں ملک کے طول و عرض میں کئی دہائیوں تک گونجتی رہی ہیں،مگر اب اس حوالے سے سناٹا ہے۔نئے کیسز بھی چیونٹی کی چال سے آگے بڑھ رہے ہیں۔نیب برسوں ملزم کواپنی تحویل میں رکھنے کے باوجود چالان پیش نہیں کرتااور جب چالان پیش کرتا ہے تو عدالت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتی ہے کیا اس بنیاد پر کیس بن سکتا ہے؟یہ صورت حال تاقیامت قائم رکھنے کی اجازت کوئی نہیں دے سکتا۔ حکومت نے برسوں سے اربوں روپے کی چوری میں ملوث ہونے کے الزام میں بعض افراد کو جیل میں ڈال رکھاہے اور وہ ہر پیشی پر میڈیا کے روبرو دعویٰ کرتے دیکھے اور سنے جاتے ہیں کہ ایک دھیلے اور ایک پائی کی چوری ثابت ہو جائے تو وہ ”گھر“ چلے جائیں گے۔اگر حکومت کے پاس کیس کوعدالت میں سچ ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد اور وعدہ معاف گواہان موجود ہیں تو حتمی چالان پیش کرنے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کی جانب سے کہے گئے الفاظ:
”آخر کچھ تو ہے کہ سارے ملزم بیرون ملک بھاگے ہوئے ہیں“
اس تاخیر کے نتیجے میں اپنی حرمت اور توقیر کھو چکے ہیں اس لئے کہ نیب کو مطلوب تمام ملزمان لندن کے ہوٹلوں میں اپنی پسند کی کافی پی رہے ہیں، کھانے کھا رہے ہیں، پارکوں میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ لندن پولیس کورونا کی ایس او پیز کی خلاف ورزی پر اگر کوئی کارروائی کرتی ہے تو اسے نیب کا یا بابر اعوان کا کارنامہ نہیں کہا جا سکتا۔معاونین اور مشیر اپنے کام سے کام رکھیں اگر اپنے منصب کی بنا پر انہیں کوئی اطلاع ملے تو اسے اپنے تک محدود اور محفوظ رکھیں، آٹھ دس دن کوئی لمبا عرصہ نہیں کہ اس عرصے میں وہ یہ اعلان کرنے سے باز رہے تو ملک میں خدانخواستہ کوئی قیامت آجائے گی۔کسی ادارے نے اپنی محنت سے چوری کی ایک یا دو بہت بڑی وارداتوں کا کھوج لگا لیا ہے تو یہ حق اسی ادارے کا ہونا چاہیئے کہ وہ مناسب وقت پر عوام کے سامنے لائے۔ہر ایرا غیرااس بارے میں جگہ جگہ مجمع لگا کربلا استحقاق اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے۔پہلے ہی مشیر احتساب و داخلہ شہزاد اکبراس ضمن میں ایسا بہت کچھ کہہ چکے ہیں جو ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچایا جا سکا۔فالودے والے، پاپڑ والے کسی عدالت میں گواہی دینے کے لئے نہیں طلب کئے گئے۔ اسکول ٹیچر اور ٹیکسی والے بھی اپنے گھروں میں چین سے سو رہے ہیں۔پنجاب وزیر اعلیٰ ہاؤس اورایک معروف خاندان کی ملکیت بعض ملوں کے ملازمین کی شہادتیں بھی الماریوں میں دفن ہیں۔عدالت کے روبرو پیش نہیں کی گئیں۔کیس کا ٹرائل نہیں ہو رہا بلکہ میڈیا ٹرائل سے کام چلایا جا رہا ہے۔لگتا ہے بلیک میلنگ سے مرعوب کر کے عدالتوں سے باہر کوئی مک مکا کر لیا جائے۔کیسز میں جان ہے تو عدالتوں سے سزا دلوائی جائے ورنہ عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔مشیروں اور وزیروں کے بیان سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان ڈھنڈورچی مزاج حکومتی ارکان کی شکل دیکھتے ہی لوگ چینل بدل دیتے ہیں۔عام آدمی بیانات اور دعوے سننے کی بجائے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں سنائے جانے کا شدت سے انتظار کر رہا ہے۔اسے ملزمان کی عدالتی پیشیوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔اگر کسی نے ریاستی خزانے میں نقب لگائی ہے تو اس سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتی جائے کسی ملزم کے نمائندے سے دعوتوں کے بہانے گھنٹوں طویل مذاکرات نہ کئے جائیں۔بیک ڈور چینل سے سودے بازی نہ کی جائے۔عدالتوں کیروبرو قابل قبول شواہد پیش کئے جائیں،جرم ثابت کریں اور مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دلوائی جائیں۔الزام تراشی کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اسے انجام تک پہنچایا جائے۔عوام سے بھی یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ صرف مقدمات کے اندراج اور اعلان سن کر حکومت کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں گے۔عوام گزشتہ چار دہائیوں سے اعلانات سن رہیں ہے کہ اب دودھ اور شہد کی نہریں گلی کوچوں میں بہتی سب دیکھیں گے مگر عملاً کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور گٹر ابل رہے ہیں۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، مرمت کرنے والے غائب ہیں۔دکانوں سے آٹا غائب ہے، چینی غائب ہے اور اگر ملتا ہے تو سرکار کے مقرر کردہ نرخوں پر نہیں مل رہا۔نالائقی کی بھی کوئی حدہوتی ہے، ٹماٹر اور سبزیاں ایران سے درآمد کی جارہی ہیں، جبکہ پاکستان خود ایک زرعی ملک ہے۔یاد رہے، لفاظی سے عزت نہیں بن سکتی،کام کیا جائے، کام سب پر بھاری ہے۔ کام سے عوام کو سکون اور حکومت کو عزت ملے گی۔پیش گوئیاں صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں