پی ٹی آئی دور میں 450 افراد بازیاب1500 لاپتہ ہوئے،آرمی چیف کوفہرست دی تھی،سرداراختر مینگل

کوئٹہ: بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت نے کسی عسکریت پسند کی حمایت نہیں کی، لوگ مجبور ہوکر ہتھیار اٹھاکر پہاڑوں پر گئے ہیں، نواب اکبرخان کو پیراں سالی میں پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا گیا۔
ناراضگی کی وجہ ستر سال سے زائد کی محرومیاں ہیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں تو بلوچ مسلح تنظیموں سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے جس کے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا1976ء سے لیکر اب تک لاپتہ افراد کا مسئلہ چلتا آرہا ہے، 450افراد اگربازیاب ہوئے تو 1500کے قریب مزید لوگوں کولاپتہ کیا گیا۔ آرمی چیف کو بھی لاپتہ افراد کی فہرست دی۔ پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی نہیں رہے کوئی وزارت اور مشیر کا عہدہ لینے کامطالبہ نہیں کیا۔ پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد ملک میں شفاف انتخابات کرانے ہیں، سترسال سے زائد محرومیوں کا ذمہ دار پنجاب ہی ہے
کیونکہ اکثریت وہی سے منتخب ہوکر آتی ہے ان سے محرومیوں وزیادتیوں کا حساب لینا چاہئے، آج پنجاب سے تبدیلی آرہی ہے اور یہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو ملک میں بڑی تبدیلی آئے گی جس کافائدہ صرف بلوچستان کو نہیں بلکہ پورے ملک کو پہنچے گا۔ ہماری جماعت نے عدم اعتماد کی تحریک اور استعفوں کے حوالے سے فیصلہ کرلیا ہے اب پی ڈی ایم کی قیادت جو فیصلہ کرے گی ہم اس کے ساتھ چلیں گے تمام آپشنز موجود ہیں، موجودہ حکومت اخلاقی طور پر حکمرانی کرنے کاجواز کھوچکی ہے۔ ان خیالات کااظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے نجی ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
سردار اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان میں ستر سال سے زائد عرصہ کی محرومیوں کا ذ مہ دار پنجاب ہے کیونکہ تمام حکمران پنجاب سے آئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت وہی سے منتخب ہوکر آتی ہے اور انہوں نے بلوچستان کو محروم رکھاان سے محرومیوں کے حوالے سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ بیروزگاری نہیں ہے اگر وفاقی کوٹہ پر بلوچستان کو ملازمتیں دی جاتی تو بلوچستان میں بیروزگاری کامسئلہ کسی حد تک حل ہوجاتاہمارے وسائل پر حق دیاجاتا تو محرومیاں کسی حدتک کم ہوجاتی مگر بلوچستان کا اہم مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا ہے
جو 1976ء سے شروع ہوا جب میرے بھائی اسدمینگل کو لاپتہ کیا گیا تھا پھر اس کے بعد مشرف دور سے یہ سلسلہ متواتر کے ساتھ جاری ہے اگر موجودہ حکومت کے دوران 450افراد بازیاب ہوئے ہیں تو 1500کے قریب لوگوں کو لاپتہ بھی کیا گیاجبکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت خود کوئٹہ میں آئی تھی اور ہمارے ساتھ چھ نکات پر تحریری معاہدے پر دستخط کرکے گئی تھی مگر اس پر عمل نہیں کیا اس لئے ہم نے راستہ الگ کردیئے ہم حکومت کے اتحادی نہیں تھے ہم نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا، بجٹ پر ووٹ دیا مگر یہ ہمارے معاہدے کے ساتھ مشروط تھا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں بھی ہم نے اپنے نکات سامنے رکھے تھے مگر انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے
مگر پی ٹی آئی حکومت نے ان نکات پر دستخط کرکے انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس پر انہوں نے عمل نہیں کیا ہم نے بارہا ان کو یاددہانی کرائی پھر بھی موجودہ حکومت نے کچھ نہیں کیا جبکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے آرمی چیف کو بھی فہرست دی تھی کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کا اختیار ہی موجود نہیں ہے۔
سردار اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان کو ہمیشہ ایک کالونی کی طرح ٹریٹ کیا گیا ہے یہاں پر رائے عامہ پر پابندی عائد ہے اور آج یہ پورے ملک کا مسئلہ بن چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں