کرفیو اور لاک ڈاؤن

تحریر: انور ساجدی
کراچی میں دوسرے روز لاک ڈاؤن کمزور دکھائی دیا سڑکوں پر ٹریفک زیادہ تھی پولیس اہلکار آنکھیں بند کئے ہوئے تھے پرائیویٹ ٹیکسیاں اور اکا دکا رکشے بھی چل رہے تھے جبکہ موٹر سائیکلوں کی بہتات تھی چونکہ بینک اور گروسری شاپ کھلے ہوئے تھے اس لئے کافی لوگ سڑکوں پر تھے بلاول چورنگی سے آئی آئی چندریگر روڈ تک سارے ٹریفک سگنل کھلے ہوئے تھے شہر کے اس حصے میں دن کے وقت فوجی جوان اور گاڑیاں نظر نہیں آرہی تھیں ایک طرح سے لوگ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہے تھے اس صورتحال کو دیکھ کر سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ ٹی وی پر دھمکی دے رہے تھے کہ لوگ گھروں کے اندر بند نہیں رہے تو باقاعدہ کرفیو نافذ کردیا جائے گا پولیس نے گزشتہ روز نواحی علاقوں میں خلاف ورزی کرنے والے کئی نوجوانوں کو مرغا بنایا ہوا تھا لیکن شہر کے مرکزی علاقوں میں سختی دیکھنے میں نہیں آئی حتیٰ کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے بھی ٹریفک رواں دواں تھی کرونا وباء پھیلنے کے باوجود کراچی کے شہری اس کی سنگینی سمجھنے کو تیار نہیں حالانکہ ڈبلیو ایچ او نے تنبیہ کی ہے کہ آئندہ چند روز میں پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے گی اور حکومت لوگوں کو بچانے میں بے بس نظر آئے گی لاک ڈاؤن کے غیر مؤثر ہونے کی ایک بڑی وجہ وفاقی حکومت کی ضد ہے پورے ملک میں بسوں کی آمدورفت بندکردی گئی ہے لیکن ٹرینیں ابھی تک چل رہی ہیں منگل کو ٹرینوں کی بندش کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے شیخ رشید کو وزیراعظم ہاؤس بلاکر یہ نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم دیاحالانکہ کوچوں اور بسوں سے زیادہ بے احتیاطی ٹرینوں اور ریلوے اسٹینوں میں نظر آرہی ہے کراچی کے کینٹ اسٹیشن میں ہزاروں لوگوں کا رش لگا ہوا ہے جہاں کرونا کے ٹیسٹ اور دیگر احتیاطی تدابیر ناپید ہیں سوال یہ ہے کہ وزیراعظم مکمل لاک ڈاؤن کے کیوں خلاف ہیں؟ وہ ابھی تک عوام کو واضح پیغام دے کر مطمئن نہیں کرسکے ریلوں کی آمدورفت جاری رکھنے ایران اور متعدد دیگر ممالک سے پاکستانیوں کو واپس لانے کے اقدامات سے کچھ شکوک پیدا ہورہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کر یہ سب کچھ کررہی ہے وزیراعظم کے مشیر ذلفی بخاری جو اوورسیز وزارت کے انچارج ہیں روز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو واپس لانے کے احکامات جاری کررہے ہیں یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی ہے کہ وزیراعظم کی ضد کے باوجود صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے فوج طلب کرکے ٹوٹل لاک ڈاؤن کا حکم دیدیا یہ عجیب بات ہے اگر صوبہ پنجاب بھی وزیراعظم کے کنٹرول میں نہیں رہا تو باقی ملک میں ان کی عملداری کیسے موثر ہے وزیراعظم نے کرونا کی تباہ کن صورتحال کے پیش نظر بروقت فیصلے نہ کرکے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہ کرکے اپنی قیادت اور اہلیت پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے گوکہ کرونا کی وباء نے اس وقت پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن اٹلی اور ایران کے بعد سب سے برا حال امریکہ کا ہے چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ میں گزشتہ سال کرونا پھیلالیکن امریکہ نے اسے عام فلو قرار دے کر چھپایا حالانکہ اس سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے امریکہ نے ابھی تک اس الزام کی تردید نہیں کی ہے سب سے کم کیس روس میں ہیں حالانکہ اس کی ساڑھے چار ہزار کلو میٹر سرحد چین سے ملتی ہے صدر پوٹن نے بروقت اقدامات اٹھاکر اور مکمل لاک ڈاؤن کرکے وباء کو پھیلنے سے روک دیا روس میں صحت عامہ کی سہولتیں بھی امریکہ اور یورپ سے زیادہ موثر ہیں آمریت کی وجہ سے حکومت کی رٹ بھی سختی کے ساتھ قائم ہے پاکستان کی اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ملک میں کرونا کی وباء پھیلنے کی تحقیقات کا مطالبہ کردے کیونکہ ابھی تک حکومت کے پاس یہ اعداد و شمار نہیں کہ کتنے لوگ زیارتوں کیلئے ایران عراق اور شام گئے تھے کتنے واپس آئے اور کتنی بڑی تعداد بدستور ان ممالک میں مقیم ہے اسی طرح یہ بھی بتایا جائے کہ عمرے پر جانے والے لوگوں کی کتنی تعداد تھی اس بات کی تحقیقات بھی ضروری ہے کہ وفاقی معاونین خصوصی اور ایک وفاقی وزیر پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ درست ہیں کہ غلط مشاہدہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم نے ابھی تک کوئی قابل قدر اہلیت نہیں دکھائی کہا جاتا ہے کہ یہ ابتک کی سست اور نااہل ترین ٹیم ہے اس کا اندازہ کرونا کی وجہ سے پیدا شدہ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم کے اعلان کردہ اقتصادی پیکیج سے لگایا جاسکتا ہے اس پیکیج میں عام آدمی غریبوں اور محنت کشوں کیلئے جن مراعات کا اعلان کیا گیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابرہے جبکہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو بہت زیادہ مراعات دی گئی ہیں حالانکہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہورہا ہے زمینی حقائق کے مطابق یہ طبقہ حیلے بہانوں کے ذریعے حکومت سے مراعات کی بھیک زیادہ مانگتی ہے اور پیداوار پر توجہ نہیں دیتی جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے حکومت کی غلط پالیسیوں اور سرمایہ دار طبقہ کی بے ایمانی کی وجہ سے پاکستان ایک ناکام ریاست کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے کرونا کے حالیہ بحران کی وجہ سے عالمی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے ماہرین کے مطابق اس کی بحالی میں برسوں لگ سکتے ہیں جبکہ پاکستان کی معیشت جو اپنے حجم کے اعتبار سے بہت معمولی ہے اس کا بحال ہونا بہت مشکل ہے کرونا نے جس طرح دونوں سپر پاورز امریکہ اور چین میں فاصلے پیدا کردیئے ہیں اس سے دنیا کی ازسرنو معاشی اور سیاسی حد بندی کا امکان ہے اٹلی چین سے زیادہ تباہی کا شکار ہے امریکہ نے اس کی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا جبکہ امریکہ کے پڑوس میں واقع حقیر ملک کیوبا نے اپنے ماہرین وہاں پر بھیجے ہیں طب کی دنیا میں کیوبا نے اپنا ایک الگ مقام بناکر رکھا ہے اس کا متوازی مگر انتہائی موثر نظام قابل رشک ہے۔
یورپی ممالک کی مدد سے انکار کے بعد یورپ کو امریکہ پر انحصار کم اور اس کی غلامی سے نکلنے کی جدوجہد کرنا ہوگی انگلینڈ تو پہلے ہی پوری یونین کو خیرباد کہہ چکا ہے جبکہ کرونا نے یونین کو تتر بتر کردیا ہے اگر جرمنی نے آگے بڑھ کر یونین کو نہیں سنبھالا تو یہ یونین ٹوٹ جائے گی اس کے بعد ہر ملک اپنا بھلا سوچے گا جرمنی جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور فرانس دوسری یہ پوری منڈی پر غالب آنے کی کوشش کریں گے یورپ نے جس طرح گھبراہٹ اور افراتفری کا مظاہرہ کیا ہے اس کی پیرانہ سال معیشت اور انتظامی صلاحیتیں دم توڑ گئی ہیں۔
لگتا ہے کہ وہ آئندہ عشرے میں معاشی اور تکنیکی میدان میں چین اور روس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے اگرچہ یورپ میں علمی استعداد اب بھی زیادہ ہے لیکن یہ استعداد سنبھلنے کے بعد ہی کام آئے گی دلچسپ امریہ ہے کہ چین پر کرونا کے بدترین حملے کے بعد وہاں کے اسٹاک ایکسچینج سنبھل چکے ہیں اور ان میں اضافہ دیکھا گیا اسی طرح بلکہ حیران کن طریقے سے بھارتی اسٹاک ایکسچینج میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے گوکہ بھارت میں اس وقت تک کرونا کے مریضوں کی تعداد کم ہے لیکن وہاں پر جس طرح کے حالات ہیں اور جتنی بڑی آبادی وہاں پر وباء کا تیزی کے ساتھ پھیلنا ناگزیر ہے اگر وہاں کی حکومت نے وباء کو پھیلنے سے روک دیا تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔
کرونا کی وباء دنیا کو اپنی گرفت سے آزاد کردے تو یہ دنیا ایک بار پوری طرح بدل جائے گی نہ صرف معاشی اعتبار سے تمام پالیسیاں بدل جائیں گی بلکہ ایک نیا گلوبل آرڈر تشکیل پائے گا نئے سیاسی اتحاد بنیں گے عالمی منڈیوں کی ہئیت یکسر بدل جائے گی اور بڑے ممالک لگژری سامان بنانے کی بجائے وباؤں کے تدارک اور تحقیق پر سرمایہ کاری کریں گے۔
صحت کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں برپا ہونگی ادویہ سازی کی نئی کمپنیاں وجود میں آجائیں گی مارکیٹ میں روایتی ادویات کی بجائے نئی دوائیں آجائیں گی اور منافع کا ذریعہ یہی شعبہ ہوگا پہلے ادویات سازی پر امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری تھی لیکن اب لازمی طور پر چین بھی میدان میں کود پڑے گا اور اس شعبے میں نئے معجزے لیکر آئیگا امریکہ اور جرمنی مقابلہ ضرور کریں گے لیکن وہ چین کے جنوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کی کمزور معیشت کا سنبھلنا جلد ممکن نہیں کیونکہ اس کی برآمدات میں کئی گنا کمی آجائے گی اوورسیز پاکستانیوں کے ترسیل زر میں بھی کمی آجائے گی اسے روز مرہ معاملات چلانے کیلئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ امداد کون دے گا اگر یہی حالات رہے تو آئی ایم ایف بھی ہاتھ کھینچ لے گا البتہ تیل کی قیمتیں زمین بوس ہونے اور کرونا کے تدارک کیلئے جو عالمی امداد ملے گی حکومت اس پر گزارہ کرے گی جبکہ عوام کی مزید تعداد غربت کی لیکر کے نیچے چلی جائے گی۔
وزیراعظم نے منگل کی شام کو میڈیا سے گفتگو کی اور اس بات پر مصر رہے کہ وہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں حالانکہ تین صوبوں کشمیر اور گلگت بلوچستان میں مکمل لاک ڈاؤن ہے وزیراعظم کو پتہ نہیں تھا کہ کرفیو ہو نہ ہو لاک ڈاؤن میں دیہاڑی دار مزدور بیروزگار ہیں وزیراعظم کا یہ بھی اصرار تھا کہ کرونا کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال بہت بہتر ہے انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ملک کو اس وقت کون لیڈ کررہا ہے۔وزیراعظم کی باتوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ زمینی حقائق سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس وقت پورے ملک میں احکامات کون جاری کررہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں