قندہار کے نواح میں بڑا حملہ، شدید لڑائی: پچاس سے زائد طالبان ہلاک

افغان صوبے قندہار کے دارالحکومت کے نواح میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی خونریز لڑائی میں پچاس سے زائد طالبان عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ طالبان نے کل رات کئی فوجی چیک پوسٹوں پر مربوط حملہ کر دیا تھا۔
ملکی دارالحکومت کابل سے اتوار تیرہ دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق درجنوں طالبان حملہ آورو‌ں نے قندہار شہر کے ارد گرد پانچ اضلاع میں سرکاری دستوں کی کئی چیک پوسٹوں پر بیک وقت ایک بڑا اور مربوط حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنا منظم تھا کہ اس کے جواب میں افغان فوج کو زمینی دستوں کے ذریعے شیلنگ کے علاوہ فضا سے گولہ باری بھی کرنا پڑی۔
سب افغان بچے پہلے تین سال پرائمری اسکولوں کے بجائے مساجد میں
کابل میں ملکی وزارت دفاع نے یہ بات آج اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہی تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کیے گئے اس حملے میں سرکاری دستوں کو کتنا جانی نقصان ہوا۔ بیان کے مطابق، ”افغان سکیورٹی فورسز نے یہ حملہ ناکام بنا دیا اور اس دوران 51 دہشت گرد ہلاک جبکہ نو زخمی ہو گئے۔‘‘
قندہار میں صوبائی حکومت کے ایک مقامی اہکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس لڑائی کے دوران افغان فورسز نے طالبان حملہ آوروں کو پسپا کرنے کے لیے جو فضائی حملے کیے، ان میں سے ایک کے نتیجے میں قندہار شہر کے ایک نواحی ضلع میں ایک ہی خاندان کے رکن سات عام شہری بھی مارے گئے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابتدائی معاہدہ طے پا گیا
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔


اس مقامی اہکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان فورسز اس فضائی حملے میں دھماکا خیز مواد سے لدی ہوئی ایک گاڑی کو نشانہ بنانا چاہتی تھیں، ”وہ اس گاڑی کو نشانہ بنانے میں کامیاب تو ہو گئیں، لیکن اس دوران ہونے والے بہت بڑے دھماکے کی زد میں آ کر ایک مقامی خاندان کے سات افراد بھی مارے گئے۔‘‘
’افغانستان میں جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں‘
اے ایف پی کے ایک نامہ نگار سے قندہار سے بتایا کہ طالبان حملہ آوروں اور افغان سکیورٹی فورسز کے مابین یہ لڑائی کئی گھنٹے تک جاری رہی، جس دوران بھاری ہتھیاروں کے استعمال کے علاوہ شدید بمباری بھی کی گئی۔
طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر قندہار کے نواح میں کافی عرصے بعد ہونے والی اس بہت ہلاکت خیز لڑائی کے بارے میں طالبان نے فوری طور پر کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا۔
طالبان۔افغان حکومت معاہدہ لفظوں میں الجھ گیا
جنوبی افغانستان میں قندہار وہی صوبہ ہے، جہاں سے برسوں پہلے طالبان کی مسلح تحریک شروع ہوئی تھی۔ قندہار کا صوبائی دارالحکومت بھی اسی نام کا شہر ہے، جس کے مضافات میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے کئی مرتبہ مسلح حملے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان کے بیسیوں حملہ آوروں نے قندہار کے گرد و نواح میں گزشتہ رات جو مربوط حملہ کیا، وہ اسی طرح کا بڑا حملہ تھا، جیسا ستمبر میں قندہار کے ہمسایہ افغان صوبے ہلمند میں کیا گیا تھا۔
پومپیو کی طالبان مذاکرات کاروں سے ملاقات، کابل میں راکٹ حملے
اس حملے میں بھی درجنوں افراد مارے گئے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں مقامی باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے گھروں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
قریب تین ماہ قبل ہلمند میں طالبان نے یہ حملہ وہاں کے صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر قبضے کے لیے کیا تھا۔ اس حمملے کا جواب دیتے ہوئے افغان فورسز نے امریکی دستوں سے فضائی حملوں کی درخواست کر دی تھی، جن کے نتیجے میں طالبان لشکر گاہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے کابل حکومت کے مذاکراتی نمائندوں اور طالبان کے مندوبین کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت جاری ہے مگر اس مکالمت کے باوجود طالبان نے حالیہ مہینوں کے دوران ہندوکش کی اس ریاست میں سرکاری دستوں پر اپنے حملے تیز تر کر دیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں