بابا مجھے بھوک لگی ہے

تحریر ؛۔ اشرف بلوچ
وندر سونمیانی نمائندہ انتخاب
کرونا وائرس کے پھیلا کو کنٹرول کرنے کیلئے دنیا بھر کے ممالک نے اپنے عوام کو اپنے گھروں تک محدود کرکے تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے حفاظتی طورپر اپنے آپ کو رضاکارانہ طورپر قرنطینہ میں رکھنے کی اپیل کی ہے پہلے پہلے تو بہت سارے ممالک کے لوگوں نے حکومتوں کی جانب سے قرنطینہ میں رہنے کے اپیل پر کسی قسم کا عمل نہیں کیا جب ان ممالک مین جب کروناوائرس کی وبا پھیل گئی تو لوگوں نے اپنی اپنی حکومتوں سے معافی مانگ کر پھر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھہ گئے جس طرح ملت خدادا پاکستان میں پاکستانی عوام وبائی صورت اختیار کرجانے والی کروناوائرس کو مذاق سمجھہ کر تمسخر اڑا رہیہیں اپنے گھروں میں محدود ہونے کے بجائے سیر سپاٹے میں لگے ہوئے ہیں اگر اللہ نہ کرے کرونا وائرس شدت اختیار کرگئی تو پھر اس پر کنٹرول پانہ ہمارے ملک کے بس میں نہیں جہاں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران کرونا وائرس کی شدت کا مقابلہ نہ کرپائے وہاں ہمارا ترقی پزیر ملک جس کی حالت یہ ہے کہ عام موسمی بخار کے علاج کیلیے ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں ڈسپرین کی گولی تک دستیاب نہیں زخم پر پٹی کرنے کیلیے ہسپتالوں میں پٹیاں تک دستیاب نہیں وہ ملک اس موذی وبا پر کس طرح کنٹرول کرپائے گی تو خداراہ اپنے بچوں اور اپنے والدین کیساتھ ساتھ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور رضاکارانہ طورپر اپنے اپنے گھروں تک محدود رہیں بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے بھر میں لاک ڈاون کیاگیا ہے اور دفعہ 144نافذ کیاگیا ہے بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ زیادہ تر دیگر اضلاع میں دفعہ 144یا کرفیو نافذ نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث صوبے کے زیادہ تر اضلاع کے عوام کو دفعہ144یاپھر جزوی کرفیو کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں اسی طرح ہماری پولیس اور لیویز بھی اس طرح کے حالات سے نبروآزما نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر کنٹرول کرنے کا تجربہ رکھتی ہے حکومت وقت اگر لاک ڈاون پر مکمل عملدرآمد کرانے میں سنجیدہ ہیتو اس کو پولیس اور لیویز فورس کو مکمل اختیارات دینے چاہیے کہ وہ کسی بھی طریقے سے لاک ڈاون پر عملدرآمد کرائے فقط زبانی کلامی سے پولیس اور لیویز لاک ڈاون پر عملدرآمد نہیں کروا سکتی اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر لاک ڈاون سے بے روزگاری کی صورت میں متاثر ہونے والے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کیلیے کییگئے اعلانات کو فقطہ اعلانات تک محدود نہ کیاجائے اس کے علاوہ متاثرین کو فراہم کیے جانے والے ریلیف کی فراہمی کیلیے ٹھوس حکمت عملی تشکیل دی جائے اور ریلیف کی فراہمی کے طریقہ کار کو بھی واضع کیاجائے تاکہ پریشان حال لوگوں کیلیے آسانی ہوکہ ان کو حکومت کی جانب سے ریلیف کی فراہمی اد طریقے سے کی جائے گی حکومتی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سینئر و جونئیر رہنماں کی بھی حکومتی یا پھر پارٹی سطح پر رہنمائی کی جائے کہ یہاں حکومت نے متاثرین کیلیے ریلیف فراہم کرنے کی بات کی وہاں انہوں نے سوشل میڈیا میں حکومتی ارادے کی تشریح شروع کردی اور لاک ڈاون سے پریشان لوگ ریلیف کی رقم لینے کیلیے سیکڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر مجموعے کی شکل میں اکھٹے ہوجاتے ہیں محکمہ محنت و افرادی قوت بلوچستان کی جانب سے لیبرز کو ریلیف فراہم کرنے کا اعلان کیاگیا اور فارم جاری کییگئے پریشان حال عوام فارموں کی وصولی کیلیے گھروں سے باہر نکل کر فوٹوشاپس اور فوٹوکاپیاں بنانے والی دکانوں پر سیکڑوں کی تعداد میں اکھٹے ہوگئے اب ان کے علم میں یہ بات نہیں ڈالی جاتی کہ یہ فارم فل کرنے کیبعد کہاں جمع کرنے ہیں حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کرنے کیساتھ ساتھہ عوام میں آگاہی پیدا کرنے کیلیے ادارے کی جانب سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے طریقہ کار کو واضع کریں تاکہ لاک ڈاون سے پریشان حال عوام کو کچھہ جانکاری حاصل ہو سکے محکمہ محنت وافرادی قوت کی جانب سے اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ان کی جانب سے فراہم کی جانیوالی ریلیف کن کن لوگوں کو فراہم کی جائے گی اور کن کن شعبوں سے منسلک افراد کو یہ ریلیف فراہم کیا جائے گا فقط ایک چند شرائط کیساتھ ایک فارم تیار کرکے فوٹو کاپیاں بنانے والی دکانوں پر پہنچا کر خاموشی اختیار کرکے سکون سے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے جیسے ہی لوگوں کو معلومات ملی کہ محکمہ محنت وافرادی قوت کی جانب سے ریلیف فراہم کرنے کیلیے فارم فلاں دکان پر دستیاب ہیں اس دکان پر مجموعہ لگ گیا فارم حاصل کرنے کیبعد اب فارم پر چسپاں کرنے کیلیے تین عدد پاسپورٹ سائز فوٹوز کی ضرورت پڑی تو لوگوں کی لمبی قطاریں فوٹوشاپس پر لگ گئیں ایک تو پہلے ہی لاک ڈاون کی صورت میں بے روزگاری اوپر سے فارمز اور فوٹو بنوانے کا خرچہ سب سے بڑھ کر حکومتی احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا دی گئیں سیکڑوں کی صورت میں جمع ہونے والی عوامی ہجوم کو منتشر کرنے میں بے اختیار پولیس اور لیویز کے اہلکار پریشان کے کس طریقے سے ان کو واپس گھروں میں بیجھیں ہماری عوام تو پہلے ہی جہالت کی آخری اسٹیج پر پہنچ چکی ہے دوسرے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے لاک ڈاون سے متاثر ہونے والے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے اعلانات اور پھر حکمران پارٹیوں کے انوکھے سینئر وجونئیر رہنماں کی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں بھی پریشان حال عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کردیتی ہیں حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اگر لاک ڈاون کے باعث متاثرہونے والے دہاڑی پیشہ مزدوروں کو کچھہ ریلیف فراہم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اس کو مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریلیف کی فراہمی کا طریقہ کار کی وضاحت کرنی چاہیے تاکہ پریشان حال عوام کو اس بات کی تسلی ملے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہماری مشکلات اور پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو امداد یا ریلیف ان کو فراہم کیا جانا ہے اس کا طریقہ کار یہ ہے فقطہ اعلانات کرکے حکمران تو اپنے رہائش گاہوں میں سکون سے بیٹھ گئے اور پریشان حال عوام ریلیف حاصل کرنے کیلیے سڑکوں پر جمع تو پھر لاک ڈاؤن یا دفعہ 144کے نفاذ کا کیا فائدہ عوام کو اپنی حالت پر چھوڑدو پھر کروناوئراس کی تباہ کاری کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کیا فائدہ حال عوام ریلیف حاصل کرنے کیلیے سڑکوں پر جمع ہوں تو پھر لاک ڈاون یا دفعہ 144کے نفاذ کا کیا فائدہ عوام کو اپنی حالت پر چھوڑدو پھر کروناوئراس کی تباہ کاری کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کیا فائدہ لاک ڈاون کے باوجود عوام ریلیف حاصل کرنے کیلیے سڑکوں پر نکل آہیں تو کیا فائدہ ایسے ریلیف کی فراہمی کا جو وبا کے پھیلا کا سبب بنے محکمہ محنت وافرادی قوت کی جانب سے کن کن طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ریلیف فراہم کرے گی کیونکہ ہمارے پاس تو ایسے ایسے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں پاے جاتیہیں جن کو تاحال لیبرز کی فہرست میں سرکاری طورپر شامل نہیں کیا گیا ہے جن میں ماہی گیر ہاری چرواہے وغیرہ وغیرہ اب ان کو لیبرز کے کس طبقے میں شامل کیاگیا ہے اور ان کو کس طریقے سے ریلیف فراہم کیا جائے گا جن لوگوں کا تعلق کسی صنعتی یونٹ سے ہے اور وہ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹر ہیں ان کی تمام تر معلومات لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود ہے توپھر ان کو ریلیف فراہم کرنے کیلیے فارمز کے فل کرنے کا طریقہ بھی بہت ہی آسان ہے کہ متعلقہ صنعتی یونٹوں کے آفیسوں میں محکمہ محنت وافرادی قوت کی جانب سے یا لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ایک عدد فارم فراہم کیا جاتا کہ اپنے ورکروں کی تعداد کے مطابق اس کی فوٹو کاپیاں بناکر اتنے دنوں تک لیبر ڈیپارٹمنٹ کے آفیس پہنچا دیں مگر افسوس متعلقہ محکمے کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے آج محنت وافرادی قوت کے جانب سے مرتب دی گئی فارمز فوٹوکاپیوں کی دکانوں پر دستیاب ہیں وبائی صورتحال میں اتنی بڑی لاپرواہی اتنیبڑے ذمدار محکمے کی جانب سے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ محنت وافرادی قوت کی اس غیر سنجیدگی کا فوری طور نوٹس لیتے ہوئے کروناوائرس کے پھیلا کو روکنیکیلیے کییگئے لاک ڈاون کے فیصلے کو عوام کیلیے مثبت اقدام ثابت کرنے کیلیے احتیاطی تدابیر کے طورپر اس پر عملدرآمد کرائے اور ایسے حالات نہ پیدا کیے جائیں کہ لاک ڈاون سے متاثرہونے والے پریشان حال متاثرین سڑکوں پر نکل آہیں دہاڑی پیشہ افراد میں فقطہ مزدوری کرنے والے شامل نہیں ہیں ان میں ان شعبوں سے بھی تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جن کو لیبرز کی شکل میں حکومتی سطح پر تسلیم نہیں کیاگیا ہے کروناوائرس کے سبب اٹھائے گئے اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر بھی انہیں شعبوں کے لوگ ہوئے ہیں جن کو تاحال لیبرز کے طورپر تسلیم نہیں کیاگیا ہے ہمارا ماہی گیر پیشہ طبقہ بھی ان میں شامل ہے موسموں کی تبدیلی کے باعث اس سال ماہی گیری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے ہی کافی مشکلات کا سامناکررہے تھے کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کے اعلان اور ماہی گیری پر پابندی عائد ہونے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے آج ہر ماہی گیر کے گھرسے کمسن بچے کی یہ آواز بلند ہورہی ہے بابا مجھے بھوک لگی ہے اب ان معصوموں کو کون سمجھائے سب سے بڑھ کر اس بھوک کو کون سمجھائے کہ محترم ایک مہینے تک ہمارے پاس مت آ کیونکہ کرونا وائرس کے سبب ملک میں لاک ڈاون ہے بھوک کو ختم کرنے کیلیے درکار اشیائے کی خریداری کیلیے پیسے کمانے کے زرائع بند ہیں اے بھوک ہمیں تنگ نہ کر ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں اب مزید ہماری پریشانیوں میں اضافہ نہ کر مگر افسوس یہ بھوک نام کی ظالم بلا کسی صورت ہمیں چھوڑنے کیلیے تیار نہیں کروناوائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے پیڈ نظر حکمران طبقہ کافی مصروف ہے ظاہر سی بات ہیکہ پرائم منسٹر یا چیف منسٹر یا دیگر محکموں کے وزرا عوام کو کروناوائرس کی وبائی صورتحال سے محفوظ رکھنے کیلیے دیگر اقدامات کرنے میں لگے ہونگے ان کو لاک ڈاون کی صورت میں بے روزگار ہونے والے لوگوں کیلیے ریلیف کی فراہمی کیلیے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی توان کی جانب سے ریلیف کی فراہمی کے اعلانات کییگئے اب عوام کو کس طرح ریلیف کی فراہمی کی جانی چاہیے اس سلسلے میں طریقہ کار کی تیاری کمشنرز ڈپٹی کمشنرز اسسٹنٹ کمشنرز تحصیلدار اور نائب تحصیلداروں کے ذمے ڈالنی چاہیے کیونکہ ان کی عوام تک رسائی ممکن ہے طریقہ کار مرتب دینے کیساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے فراہم کییگئے ریلیف کو گھرگھر تک بڑی آسانی سے پہنچائی جاسکتی ہیں خدارا اپنی اپنی ذمداریوں کو سمجھیں پریشان حال عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ کریں حکومتی اداروں کیساتھ ساتھ مغیر حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق لاک ڈاون سے بے روزگار ہونے والے پریشان حال دہاڑی پیشہ مزدوروں کی مالی مدد فرمائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں