ننھی سی چڑیا

تحریر: انور ساجدی
تماشہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے آئندہ اقساط مار دھاڑ سے بھرپور ہونگے خواجہ سیالکوٹی کی گرفتاری خالصتاً وزیراعظم عمران خان کا عمل ہے کیونکہ وہ خواجہ صاحب سے ذاتی پرفاش رکھتے ہیں سب کو یاد ہوگا کہ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے خواجہ سیالکوٹی کی نقل اتاری تھی اور تصدیق کی تھی کہ انہوں نے رات فون کرکے باجوہ صاحب سے اپنی کامیابی کی بھیک مانگی تھی غالباً یہ ناراضگی عثمان ڈار کی وجہ سے ہے جو عمران خان کے بقول الیکشن جیت گئے تھے لیکن خواجہ سیالکوٹی کی دہائی کی وجہ سے وہ اس کامیابی سے محروم رہے اگلی باری احسن اقبال کی ہے جس پر ناروال اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر میں اربوں روپے کی خردبرد کا الزام ہے سوچنے کی بات ہے کہ بلوچستان میں سڑکیں نہیں ہیں اسپتال نہیں ہیں ڈاکٹر اور ادویات ناپید ہیں لیکن احسن اقبال نے ناروال میں کھیلوں کے ایک پراجیکٹ پر اربوں روپے خرچ کرڈالے وہ بھی مکمل نہیں ہے احسن اقبال سے بھی کپتان بہت ناراض ہیں اور انہیں پکا یقین ہے کہ جب وہ سی پیک کے انچارج وزیر تھے تو انہوں نے اربوں کا کمیشن کھایا یاوزارت سے پہلے احسن اقبال بنی گالا میں ایک معمولی سے مکان میں رہتے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے پرتعیش رہائش گاہ کاانتظام کرلیا یہ جو حکومت نے سی پیک پروجیکٹ سست رفتار کیا ہے اس کی وجہ احسن اقبال اور ن لیگ ہے دوسری طرف چین نے بھی عارضی طور پر ہاتھ روک لیا ہے یعنی حکومت اور چین کے درمیان گرم جوشی اور ہم آہنگی نہیں ہے۔
سی پیک کے آئندہ جو بھی منصوبے بنیں گے ساؤتھ زون میں ہونگے اور ان کی اہمیت کمرشل سے زیادہ اسٹریٹجک ہوگی ن لیگ کے تمام اہم زعما کو گرفتار کرنے کافیصلہ کرلیا گیا ہے میاں جاوید لطیف سے لیکر امیر مقام تک کسی کو چھوڑا نہیں جائے گا حیرت انگیز طور پر مولانا کیخلاف کارروائی کا بھی حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے لیکن اس پر بعض اداروں کے تحفظات ہیں جن کا خیال ہے کہ مولانا کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوجائیگا مجوزہ یا ممکنہ گرفتاری کے مابعد اثرات پر مولانا محمد خان شیرانی سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد ان کا ساتھ دے گی اور اس طرح کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا جس کا خوف محسوس کیاجارہا ہے شروع میں مولانا کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں گے اگروہ دوبار پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیئے جائیں گے یہ ضرور ہے کہ نیب یا حکومت کو ان کی گرفتاری سے خوف محسوس ہوگا کیونکہ پارٹی کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے اگر گرفتاری کے وقت مولانا کی تضحیک کی گئی تو جانوں کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیاجائیگا اس مقصد کیلئے کئی نوجوان جانثاروں نے اپنی خدمات پیش کردی ہیں پی ڈی ایم میں اختلاف کی وجہ سے مولانا اور ن لیگ کافی مشکلات میں گھری نظرآتی ہیں دونوں جماعتوں کوزرداری سے بڑے گلے شکوے ہیں کیونکہ وہ استعفوں اور لانگ مارچ میں ان کا ساتھ دینے سے صاف انکاری ہیں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے یہی کچھ کرنا تھا تو پہلے سے بتادیتی تاکہ لانگ مارچ اوراستعفوں کی تاریخوں کا اعلان نہ کیاجاتا ادھر پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنماؤں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ن لیگ اور مولانا ایک پلان کے تحت پیپلزپارٹی کو بند گلی میں لے جانا چاہتے ہیں اراکین نے بڑے تحفظات کااظہار کیا اور کہا کہ اگر مولانا لاڑکانہ کی تنظیم کی قربانی نہیں دے سکتے تو وہ کس طرح توقع رکھیں کہ پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی قربانی دے اجلاس میں محترمہ کی برسی کے جلسہ میں مولانا کے شرکت نہ کرنے پر افسوس کااظہار کیا گیا اسی طرح ن لیگ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسکے مقتدرہ سے خفیہ رابطے جاری ہیں لیکن میاں نوازشریف وطن واپس آنے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ انہیں واپسی پرقید وبند کاسامنا کرنا پڑے گا اکثررہنماؤں کی رائے تھی کہ اگرمیاں نوازشریف واپس آکر تحریک کی قیادت کریں تو پیپلزپارٹی سندھ حکومت چھوڑنے سمیت تمام اقدامات کی حمایت کرے گی مولانا اور ن لیگ کے ہاں پیپلزپارٹی کا رویہ مایوس کن اور عمران خان کی حمایت کے مترادف ہے یہ بات اس حد تک صحیح ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے موقف کا اعلان ہوا تو حکومت نے اسے اپنے لئے آکسیجن اور تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا تمام وزراء پھولے نہیں سمارہے تھے اور ان کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ان کی حکومت کو ریسکیو کرلیا ہے۔
ایک عجیب بات ہے کہ گزشتہ دھرنے کے موقع پر مولانا کو بلاکر کہا گیا تھا کہ ہم نوازشریف کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں آپ بیچ میں نہ آئیں لیکن اب ”ڈھانواں ڈھول“ لیگی رہنماؤں سے کہہ دیا گیا ہے کہ ہم مولانا کے ساتھ جوبھی کرنا چاہتے ہیں آپ لوگ درمیان میں نہ آئیں چنانچہ جب مفتی کفالت اللہ کیخلاف غداری کے مقدمہ کے اندراج کافیصلہ کیا گیا تو لیگی رہنماؤں نے خاموشی اختیار کرلی مفتی صاحب پرغداری کی دفعہ لاگو ہوتی ہے کہ نہیں یہ تو حکومتی ماہرین قانون کی رائے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔کیونکہ مفتی نے بظاہر آئین کی دفعہ6کے تحت ملک کی سلامتی کیخلاف کوئی کام نہیں کیا بلکہ انہوں نے بعض شخصیات کو ہدف تنقید بنایا تھا حالیہ لڑائی سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ہر طرح کی باتیں سرعام ٹی وی شو اور میڈیا پرسننے کو مل رہی ہیں جس کا اندازہ اس 26نکاتی فہرست سے لگایاجاسکتا ہے کہ جو نیب کے سوالنامہ کے جواب میں جے یو آئی نے جاری کی ہے اس طرح یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں غیرسیاسی شخصیات کو بھی میدان میں گھسیٹا جارہا ہے لیکن یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوگی کہ حکومت جو چاہے من مانی کرے اپوزیشن کوطاقت کے ذریعے کچل دے جس کے بعد وہ1973ء کے آئین کو بدل ڈالے 18ویں ترمیم کا خاتمہ کردے اور ملک میں صدارتی یاوحدانی طرز کانظام لاگو کرے اگر حکومت کے یہی ارادے ہیں تو اسے ایک سخت اور طویل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا یہ مزاحمت طویل اس لئے نہیں ہوگی کہ حکومت کی چڑیا میں زیادہ جان نہیں ہے جس دن سرپرستوں نے ہاتھ سرپرسے اٹھالیا اس کی ننھی سی جان نکل جائے گی اس وقت حکومتی اکابرین جس رعونت اور زعم کاشکار ہیں وہ ان کی اپنی طاقت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار دوسروں پر ہے اس کے ساتھ ہی حکومت کی کارکردگی صفر ہے اس کے پاس عوام کے پاس جانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے آج یہ نیب کو بے دریغ استعمال کررہی ہے کل کرپشن کی وجہ سے اس کے اپنے متعدد وزراء اور رہنما زد میں آجائیں گے میاں نوازشریف سے سبق سیکھنا چاہئے 18ویں ترمیم کے موقع پر ان کی منت سماجت کی گئی کہ نیب کے قوانین میں ردوبدل کیاجائے لیکن میاں صاحب نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا وہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ پاک اورصاف ہیں اچھا ہے پیپلزپارٹی کرپشن کی وجہ سے رگڑا کھائے آئندہ بھی یہی ہوگا جو کچھ وہ آج کی اپوزیشن کے ساتھ ہورہا ہے وہی کچھ کل تحریک انصاف کے ساتھ ہوگا تحریک انصاف کے لوگوں میں ن لیگ جتنی برداشت بھی نہیں ہے وہ کال کوٹھڑیوں میں اتنا چیخیں گے کہ ساری دنیا سنے گی ریلویز کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد شیخ رشید کو مخالفین کو کچلنے کی ذمہ داری دیدی گئی ہے وہ ضرور کوئی ایسی غلطی کربیٹھیں گے کہ جس کا مداوا نہیں ہوسکے گا حکومت سمجھتی ہے کہ نیب آزاد ادارہ ہے اگر یہ سچ ہے تو شیخ رشید پیپلزپارٹی کو یہ دھمکیاں کیوں دے رہے تھے کہ اگرانہوں نے حکومت کی مخالفت ترک نہ کی تو اس کے رہنماؤں کو جیلوں کاسامنا کرنا پڑے گا سنا ہے کہ حکومت کے واویلا کے بعد اسے فری ہینڈ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی وارننگ بھی دی گئی ہے کہ اگراس نے اپوزیشن پرقابو نہ پایا تو آئندہ سال تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں