تفتان میں زائرین کھلے آسمان تلےتھے،پالیسی پر میرا عمل دخل نہیں تھا،زلفی بخاری

اسلام آباد — پاکستان کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار عباس بخاری (زلفی بخاری) کا کہنا ہے کہ ایران سے زائرین کو زبردستی لانے اور تفتان قرنطینہ سے فرار کرانے کے الزام پر وہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کے خلاف عدالت سے رُجوع کریں گے۔ خصوصی انٹرویو میں معاونِ خصوصی برائے اووسیز پاکستانیز زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ تفتان میں زائرین کے لیے اپنائی گئی پالیسی پر اُن کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ زائرین بے سہارا کھلے آسمان تلے بارڈر پر موجود تھے، لہذٰا اُنہیں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔زلفی بخاری کے بقول مختلف ائیرپورٹس اور ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ البتہ وہ پاکستانی جو بیرون ملک مستقل مقیم ہیں انہیں واپس نہیں لائیں گے۔اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں پھنسے عمرہ زائرین اور مختلف ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔زلفی بخاری نے بتایا کہ دیگر ممالک میں سیاحت یا عارضی طور پر جانے والے پاکستانیوں کو لانے کے لیے انتظامات کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں بینکاک ایئر پورٹ پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس لائیں گے۔ پاکستان آنے والے افراد کو ‘آئسولیشن’ میں رکھا جائے گا۔وزیراعظم کے معاونِ خصوصی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت نے چین میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کو واپس نہ بلانے کا فیصلہ کیا جس کا فائدہ ہوا۔زلفی بخاری کے بقول کرونا وائرس کے تناظر میں جو پالیسی چین کے لیے اپنائی وہی ایران سے آنے والوں پر لاگو کی گئی۔ چھ ہزار کے قریب پاکستانی طلبہ بدستور ایران میں مقیم ہیں۔زلفی بخاری نے کہا کہ چین سے پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی کیس نہیں آیا لیکن اُن کے مطابق ایران سے زائرین کا معاملہ مختلف تھا۔اُنہوں نے وضاحت کی کہ ایران نے پانچ ہزار پاکستانی زائرین کے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر یعنی خروج لگا کر اُنہیں بارڈر پر بھیج دیا تھا۔ یہ تمام افراد کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ لہذٰا انہیں پاکستان لائے اور تفتان کے قرنطینہ مرکز میں رکھا۔زلفی بخاری کہتے ہیں کہ تفتان پر رکھے جانے والے زائرین کا چین کے شہر ووہان میں رہنے والے پاکستانیوں سے موازنہ درست نہیں۔ کیونکہ زائرین کو عارضی قرنطینہ سینٹر میں رکھنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ایران بارڈر سے خروج کے بعد وہ بے سہارا تھے۔انہوں نے کہا کہ "کچھ تجزیہ کار اور صحافی یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے اپنے زائرین کو ایران سے واپس نہیں بلایا تو واضح کر دوں کہ بھارت کا ایران کے ساتھ بارڈر نہیں ملتا اور فضائی پالیسی ہماری بھی وہی ہے جو نئی دہلی کی ہے۔”ذوالفقار بخاری بولے کہ تفتان قرنطینہ سینٹر میں مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دیگر لوگوں کے وبا سے متاثر ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ دُور افتادہ علاقہ ہونے کے باعث وہاں کے انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔زلفی بخاری کے بقول وہ زائرین کو تفتان میں رکھنے کی حکمت عملی پر اختیار رکھتے تھے نہ ہی اثر انداز ہوئے۔ البتہ حزبِ اختلاف کے رہنما نے بہتان لگایا کہ انہوں نے ایران بارڈر سے لوگوں کو بغیر قرنطینہ گھر جانے کے احکامات دیے۔ جس پر وہ خواجہ آصف کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔
ذوالفقار بخاری نے کہا کہ خواجہ آصف قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی سربراہ ہیں ان کی جانب سے یہ بیان کہ میں نے تفتان سے لوگوں کو بغیر قرنطینہ آنے دیا انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے.”اگر یہ تاثر لوگوں میں پھیل گیا کہ زلفی بخاری کی وجہ سے کرونا وائرس پھیلا ہے تو میری زندگی کو تو خطرہ لاحق ہو گیا۔ جھوٹی اطلاع پر ٹی وی پر ایسے آ کر کسی کو داغدار کیا گیا، کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو انہیں جیل ہوتی۔”زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کے قریب تصور کیا جاتا ہے اور اس بنا پر آسان ہدف سمجھتے ہوئے متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زلفی بخاری کے بقول دوسری وجہ یہ ہے کہ اُن کی وزارت خاصی فعال ہے، لہذٰا جو کام کرتا ہے تو اُس پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ذوالفقار بخاری نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث دنیا بند ہو کر رہ گئی ہے جس کے باعث سیاحت کے فروغ کے حوالے سے حکومتی پالیسی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سیاحت سے وابستہ شعبے کے لیے حکومت امدادی پیکج لا رہی ہے تاکہ سیاحت سے وابستہ افراد اس مشکل صورتِ حال کا مقابلہ کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں