لاک ڈاؤن ناکام بنانے کاکیامقصد ہے؟

انور ساجدی

ڈاکٹرعطاء الرحمن موجودہ حکومت کے ٹاسک فورس برائے سائنس کے سربراہ ہیں وہ سابق وزیر بھی رہے ہیں انکی ٹیم نے چنددنوں کے اندر کرونا وائرس کاٹیسٹنگ کٹ تیار کیا ہے جس کی آزمائش ہورہی ہے وہ طویل عرصہ سے فریاد کررہے ہیں کہ تعلیم اور سائنس کا بجٹ بڑھایاجائے ہم ٹیکنالوجی اورترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہیں گے لیکن2002سے اب تک کسی حکومت نے انکی بات نہیں سنی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے جب سے کرونا کی وبا آئی ہے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ یہ وبا آگ کی طرح پھیل رہی ہے متاثر لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے کیونکہ ٹیسٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے زائرین اور تبلیغی اجتماعات نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے لیکن حکومتی حلقے انکی بات کو ہوا میں اڑارہے ہیں خدا کرے کہ وبا مزید نہ پھیلے لیکن مرکزی سرکا رتو زبانی کلامی تسلیوں اعلانات اوربریفنگ کے سوا کوئی عمل اقدامات نہیں کررہی گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹرظفر مرزا نے تسلیم کیا کہ ایران سے جو زائرین تفتان پہنچے وہاں پرانکی دیکھ بھال ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کے معقول انتظامات نہیں تھے جس کی وجہ سے زائرین جہاں جہاں تک گئے مرض پھیلاتے گئے لیکن مرکزی سرکاری کے بڑے اکابرین یہ بات ماننے کو تیار نہیں اسکے علاوہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ دیہاڑی دار مزدوروں کے گھر گھر راشن پہنچایا جائیگا لیکن ان کا ایم این اے ڈاکٹر عامرلیاقت آج صبح بتارہے تھے کہ مرکزی حکومت نے ہر ایم این اے کو صرف ڈھائی سو پیکٹ دیئے ہیں۔جبکہ ایک ایک ضلع میں کوئی لاکھ لوگ رہتے ہیں اسی طرح سندھ حکومت نے بھی بڑے بلندوبانگ دعوے کئے تھے لیکن وہ بھی مستحق غربا میں راشن نہیں پہنچاسکی ہے جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے فاقے بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مجبور ہوکر سڑکوں پر آگئے ہیں پیر کو کراچی میں لاک ڈاؤن تقریباً ناکام تھا ٹریفک معمول سے زیادہ تھی پرچون کی تمام دکانیں کھلی تھیں کھانے کے چھوٹے ہوٹل بھی کھلے ہوئے تھے جگہ جگہ دیہاڑی دار مزدور اپنے بیلچے لئے کھڑے تھے تاکہ کوئی آکر انہیں امداد دے جائے وزیراعظم کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت سے بھی لوگوں کو حوصلہ ہوا کہ وہ سڑکوں پر آئیں اگرچہ کوئی اعدادوشمار نہیں لیکن لوگوں کی بے چینی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہزاروں گھرانے فاقوں کا شکار ہیں اسی وجہ سے معمول سے کہیں زیادہ بھکاری بھی ٹولیوں کی شکل میں گھومتے نظرآئے بلوچستان میں تو پہلے سے لاک ڈاؤن ناکام تھا کیونکہ وہاں پر آبادی کاایک بڑاطبقہ شروع سے اسے توڑنے پرتلا ہوا تھا اس طبقہ کوخوش فہمی ہے کہ کرونا ان کو نہیں لگ سکتا وزیراعظم نے گزشتہ روز لاک ڈاؤن پر لات مارتے ہوئے تمام شاہراہیں حتیٰ کہ موٹرویز بھی کھولنے کا حکم دیا تھا۔
ادھر بیلاروس کے صدر
لوکوشینکونے گزشتہ روز
عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایاکہ
کرونا وائرس کچھ نہیں بیچتا یہ ایک
ہوا ہے بیلاروس کے کسانوں کو چاہئے
کہ وہ اپنے ٹریکٹر لیکرکھیتوں میں
جائیں نوجوان فٹبال کے میچ
دیکھیں اور عوام وڈ کا پئیں
غالباً بیلاروس کے آمراپنے وزیراعظم سے متاثر ہیں کیونکہ انہوں نے شروع میں کرونا کومعمولی فلو قراردیا تھا جب یہ وبا پھیلی تو انہوں نے ٹی وی پر آکر کہا کہ وہ سندھ کی طرح لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں کیونکہ مکمل لاک ڈاؤن کا مطلب کرفیو ہوتا ہے اور ملکی معیشت اس کا متحمل نہیں ہوسکتی البتہ وزیراعظم کی یہ بات درست تھی کہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں تمام آبادی کو گھروں پرکھانا پہنچانا پڑے گا جبکہ ہمارے اتنے وسائل نہیں ہیں البتہ وزیراعظم نے ایک پیکیج کااعلان کیا تھا اورراشن پہنچانے کیلئے ایک ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا تھا یہ فورس ابھی تک بن نہیں پائی ہے جب تک یہ قائم ہوگی مزید گھرانوں میں فاقوں کا راج ہوگا۔معلوم نہیں وفاق اور صوبائی حکومتیں بے حد نازک صورتحال کی سنگینی کا ادراک کیوں نہیں کررہی ہیں کم از کم وہ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم بورس جانسن کی رعونت سے کچھ سبق سیکھیں ٹرمپ نے شروع میں لاک ڈاؤن سے انکار کردیا تھا لیکن آج وہ کہہ رہے ہیں کہ نیویارک میں وبا کوروکنے کیلئے مکمل لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ نہیں ادھر برطانیہ کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ جون سے پہلے ہمارے ملک کے حالات معمول پر نہیں آسکتے اگر پاکستان کی حکومت نے اب بھی امداد پہنچانے میں تاخیر سے کام لیا تو وہ دن دور نہیں جب لاکھوں بھوکے لوگ سڑکوں پر نکلیں گے شہر شہر بلوے اور فسادات شروع ہوجائیں گے،کراچی شہر میں لوٹ ماراورافراتفری کاخطرہ بھی ہے اگر فاقے بڑھ گئے تو ہجوم بڑے بڑے اسٹوروں پر ہلہ بول کر انہیں لوٹ لیں گے لہٰذا سندھ حکومت کو چاہئے وہ عملی اقدامات کرے اور بلوے شروع ہونے سے پہلے لوگوں کوراشن پہنچانا شروع کردے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اب تک کچی آبادیوں اور غریب بستیوں کا سروے کیاجاچکا ہوتا اور راشن کی تقسیم شروع ہوجاتی لیکن مرادعلی شاہ کی شبانہ روز محنت بلا کی چاکدستی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کو انکی ٹیم خاک میں ملارہی ہے حالانکہ گزشتہ روزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ غریبوں کو جلد راشن پہنچایا جائے وزیراعلیٰ کے سخت احکامات کے باوجود تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے کارکن سڑکوں پر بلاوجہ آکر کراچی لاک ڈاؤن کوناکام بنارہے ہیں حماقت کی بھی حد ہوتی ہے جوحشر اٹلی،اسپین،فرانس اور انگلینڈ کاہورہاہے اس سے بھی کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں،اٹلی کے وزیراعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ یورپی یونین اپنا مقصد کھوچکا اس نے اتنی بڑی آفت کے دوران اس کی کوئی مدد نہیں کی لگتا ہے کہ کرونا کے بعد دنیا کی ازسرنو سیاسی تقسیم ہوگی دنیا کی مرکزیت یاگلوبل ولیج کے تصور کو سخت نقصان پہنچے گا۔کیونکہ کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں ”حشر“ کا سماں ہے ہر ملک اپنی سوچ رہاہے کسی کو بھی دوسروں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہے ہماری وفاقی حکومت نے صوبوں کے ساتھ جوبے اعتنائی برتی ہے اس سے بھی مضبوط مرکز کے تصور کو مزید دھچکہ لگے گا اب تک وفاق نے کسی صوبے کے عوام کی کوئی مدد نہیں کی ہے بلکہ چاروں صوبے آزاد کشمیر اور گلگت،بلتستان کی حکومتیں اپنے ہی وسائل سے اپنے عوام کی مدد کررہی ہیں ایک عجیب بات چین کا رویہ ہے کرونا سے بلوچستان ایک طرح سے سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن چین کے امدادی جہاز کراچی اور اسلام آباد میں اتررہے ہیں حالانکہ گوادر بلوچستان میں ہے۔سندک بلوچستان میں ہے جہاں سینکڑوں چینی باشندے کام کررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک پراجیکٹ میں بلوچستان کی کیاحیثیت اور اہمیت ہے مزے کی بات یہ ہے کہ پنجاب اور پشتونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن پنجاب نے اس بحران کے دوران بھی پشتونخوا کوآٹا دینے سے انکار کردیاہے تحریک انصاف کے مردبحران جہانگیر خان ترین اس تحقیق کے بعد کہ دنیا میں کونسا ملک کرونا سے کم متاثر ہے نیوزی لینڈ فرار ہوگئے ہیں حالانکہ کرونا نے آسٹریلیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے اوریہ وبا نیوزی لینڈ بھی پھیلنے والی ہے لگتا ہے کہ انگلینڈ کے بعد نیوزی لینڈ میں بھی ترین کا کچھ نہ کچھ جمع پونجی ہوگی اس لئے وہ اس پر سکون ملک میں کرونا کا وقت ٹالنے کیلئے گئے ہیں انکے علاوہ کئی ٹائیگر زیرزمین چلے گئے ہیں نہ بوٹ والے فیصل واؤڈا نظرآرہے ہیں نہ چوہان سے چچارہے ہیں نہ عباسی صاحب دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی زیدی صاحب کچھ خیال آرائی فرمارہے ہیں بس اپنی آپاں فردوس نے حکومت کا سارا بوجھ اپنے کاندھوں پراٹھاکر رکھا ہے میڈیا کا پورا محاذ انہوں نے سنبھال رکھا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر دشنام طرازی کاکام ٹائیگر فورس انجام دے رہی ہے اپنی حکومت کی ناکامی دوسروں پر تھوپنے کی بھرپور کوشش جاری ہے اب بھی معشیت کی تباہی کے ذمہ داران ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر ڈالی جارہی ہے حالانکہ بیرون قرضوں کو41ارب ڈالر تک اس حکومت نے ہی پہنچایا ہے سابق مشیر برائے خزانہ نے ڈاکٹر حفیظ پاشا نے دعویٰ کیا ہے کہ6ماہ بعد پاکستان کی شرح نمومنفی6تک گرنے کا امکان ہے اگر ایسا ہوا تو کم از کم ایک کروڑ لوگ بے روزگارہوجائیں گے اسٹاک مارکیٹ کے کھربوں روپے ڈوب جائیں گے اس ممکنہ تباہ معیشت کو کوئی غیبی امداد ہی بچا سکتی ہے وزیراعظم کو توقع ہے کہ وہ مزید قرضے اور امداد حاصل کرکے موجودہ شرح نمو 1.5فیصد کوبرقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
وزیراعظم کو معیشت کی فکر ہے لیکن عوام کی نہیں ہے معیشت کو لیکر ہی انہوں نے شاہراہیں کھول کر اورگڈز ٹرانسپورٹ کھول کر لاک ڈاؤن ناکام بنادیا۔مال لانے لے جانے والی گاڑیوں میں لوگ بڑی تعداد میں چھپ کر سفر کررہے ہیں اس سے کرونا کی وبا قیامت تک کنٹرول میں نہیں آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں