وکلاء کا اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا

اپنے چیمبرز گرائے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے مشتعل وکلاء نے چیف جسٹس کے دفتر پر دھاوا بول دیا،یاد رہے کہ وکلاء کے مذکورہ چیمبرزوزیراعظم عمران خان کی ہدایت پرانسداد تجاوزات آپریشن کے دوران اتوار اور پیر کی درمیانی شب ضلع کچہری میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی عدالت کے باہر اور ارد گرد گرائے گئے تھے۔اپنے چیمبرز مسمارکئے جانے پر وکلاء نے مشتعل ہوکر پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی عدالت کی سامنے توڑ پھوڑ کی اور پھر نعرے بازی کرتے ہوئے چیف جسٹس کے دفتر کی طرف بڑھے،اور جو چاہا کیا، کوئی انہیں روکنے اور سمجھانے والا نہیں تھا۔انہوں نے کھڑکیوں کو شیشے توڑ دیئے، حفاظتی پولیس نے مشتعل وکلاء کو دیکھتے ہی راہ فرار اختیارکی۔اگر پو؛لیس نے اسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو ڈیوٹی پر کھڑاکرنے کا کیا فائدہ؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اپنے چیمبر میں چلے گئے جہا ں وکلاء نے ان کا محاصرہ کرلیا،اور دیر تک میڈیا سے بھی تلخ کلامی کی گئی اور انہیں مارنے کی کوشش بھی ہوئی۔انتظامیہ نے پولیس کی اضافی نفری بلائی تب جا کر صورت حال پر قابو پایا جا سکا۔اس دوران چیف جسٹس بلک میں موجود خواتین اسٹاف کو بحفاظت نکلوا دیا۔اور ان کو گھر بھجوا دیا۔مشتعل وکلاء مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔وکلاء سے صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری حسیب نے کہا یہ جو توڑ پھوڑ اور نقصان ہواہے یہ نقصان میرا نقصان ہے۔ آپ اپنے مطالبات لکھ کر دیں،جب تک آپ کے مطالبات ہمارے سامنے نہیں لائیں گے اور اسی طرح شور شرابہ کریں گے، تو پھر مجھ سے گلہ نہ کیا جائے کہ ہمارے صدر نے ہماراساتھ نہیں دیا۔ سیکرٹری ہائیکورٹ بار سہیل اکبراور دیگر عہدیدار بھی موجود تھے۔تھوڑی دیر میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات بھی موقع پر پہنچ گئے لیکن انہوں نے وکلاء سے کوئی بات نہیں کی۔البتہ جسٹس محسن کیانی شور شرابہ سنتے ہی اپنے دفتر سے باہر نکل آئے اور وکلاء کو حتی المقدور سمجھانے کی کوشش کی۔رینجرز افسران کی ایک ٹیم کو بھی بلاک کے سامنے وکلا نے روک لیا۔گویا صورت حال مکمل طور پر مشتعل وکلاء کے کنٹرول میں تھی۔جو نہ چیف جسٹس اور جسٹس محسن کیانی کی کوئی بات سننے کو تیار تھے نہ ہی ہائی کورٹ بار کے صدر اور دیگر عہدیداروں کی کسی بات کو ماننے کو تیارتھے۔وکلاء کی اجانب سے ایسا اشتعال انگیز اقدام پہلی مرتبہ سرزدنہیں ہوا یہ لوگ ذرا ذرا سی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور سماجی اخلاقیات، اپنا کوڈ آف کنڈکٹ قانونی ضابطے یکسر فراموش کردیتے ہیں۔پولیس افسران کو اکثروبیشتر وکلاء عدالتی احاطہ میں بری طرح زدوکوب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ مادر پدر آزادی انہیں نے قانون نہیں دیتا۔یہ ماورائے قانون رویہ انہوں نے ملک میں رائج لاقانونیت سے خود ہی مستعار لیا ہے۔بجائے اس کے کہ یہ خود قانون کا احترام کرتے، عدالتوں کی توہین باز رہتے۔ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے اپنا کردار ادا کرتے،مگر انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینا روزانہ کا معمول بنا لیا ہے۔جب چاہا ڈنڈے اٹھائے سڑکوں پر آگئے،ہلڑ بازی کی، اپنی پسند کا فیصلہ نہ دینے والے جج کی بے عزتی کرنا انہوں نے اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔کوئی ان سے یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ تمہیں اس قسم کی غنڈہ گردی کا حق ملک میں رائج کون سا قانون دیتا ہے۔جج لوئر کورٹ کا ہو یا سپریم کورٹ کا جج ہو سب کی عزت نفس یکساں طور پر محترم ہے۔ماضی قریب میں انہوں نے لاہور میں ایک دل کے مریضوں کے لئے قائم اسپتال میں گھس کر بے شرمی کی پست ترین حدوں تک جا کے بدمعاشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسپتال میں داخل مریضوں کے منہ سے آکسیجن پائپ تک زبردست کھینچ کر اتار دیئے تھے۔سینیئر وکلاء اگر بیچ نہ کراتے اور درندہ صفت وکلاء کو قازنون کے مطابق سزائیں دے دی جاتیں تو وکلاء کا دماغ اسی کیس میں درست ہوجاتا۔ان ظالموں نے محض اس بات پر ناراض ہوکر یہ طوفان بد تمیزی مچایا تھا کہ کسی وکیل مریض کو لائن میں لگنے کا مشورہ کیوں دیا گیا تھا؟ یہ فیصلہ کرنا کہ کس مریض کو پہلے دیکھنا ہے یہ اسپتال انتظامیہ کو حق حاصل ہے،کس مریض کی حالت کس حد تک تشویشناک ہے یہ فیصلہ مریض کے دوست احباب نہیں کرسکتے،وہ بھی دل کی نازک اور پیچہیدہ امراض میں مبتلاء افراد کی صورت میں۔وکلاء نے یہ بدتمیزی براہ راست چیف جسٹس اسلام آباد ہوئی کورٹ کے دفتر میں توڑپھوڑ، ان کے چیمبر میں پہنچ کر گالم گلوچ کی صورت میں کی ہے اور میڈیاکی موجودگی میں انہیں اس قانون شکنی پر ذرا سی شرم نہیں آئی،نہ ہی ان کے دل میں ایک لمحے کے لئے یہ خیال آیاکہ قانون شکن اقدامات کی لمحہ بہ لمحہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔لگتا ہے قانون کو اپنے پیروں تلے روندنے کی انہیں بری لت لگ گئی ہے اور وہ اپنی قانون شکنی کی تسکین کے لئے کسی حد کو بھی عبور کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ابھی تک اس قانون شکن ذہنیت پر کاری ضرب لگانا تو دور کی بات ہے کسی نے پیر کی ہلکی سی چپت بھی رسید نہیں۔لاقانونیت کی ابتدا ء کب اور کس کے ہاتھوں ہوئی؟ بینچ اور بار دونوں کی مصلحت پسندی، ٹال مٹول اور ناقابل معافی غفلت نے عام آدمی کو یہ شرمناک مناظر دکھائے ہیں۔ماڈل کالونی تھانے (لاہور)کی حدود میں رونما ہونے والا درد ناک سانحہ بھی قانون شکنی کا ایسا ہی بدنما واقعہ بھی اسی قانون شکن ذہنیت کا پرتو تھا۔کچھوے کی رفتار سے سماعت آگے بڑھ رہی ہے۔واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو کچھ کیا گیا اسکے وکٹم براہ راست چیف جسٹس اور ان کے معزز کولیگ ہیں۔ملزمان ہر گز نامعلوم نہیں، جانے پہچانے چہرے ہیں۔معزز عدالت کے روبر ہر دوسرے تیسرے دن پیش ہونے والے افراد ہیں۔تماکارروائی انہوں نے کیمرے کے سامنے کی،ان کے چہروں پر مجرمانہ آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ ہرگز اپنے کئے پر نادم دکھائیی نپہیں دیتے۔ان کی حرکات و سکنات سے عیاں کہ ان کی ذہنی تربیت اسی کردارکے لئے کی گئی تھی۔ان کی اسناد کی جانچ پڑتال بھی کرائی جائے تاکہ علم ہوسکے کہ یہ وکالت جیسا معزز پیشہ اختیار کی بنیادی شرط پوری کرتے ہیں، یا پی آئی اے کے پائلٹس جیسے ہیں؟جو پورے ملک کی عزت داؤ پر لگانے کا سبب بنے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ترجمان کے مطابق ا21ملزمان نامزدجبکہ مجموعی طور پر 300 کے خلاف انسداد دہشت گردی، اور توہین عدالت کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور ان کے لائسنس معطل کرنے کے لئے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔لیکن بھاگنے والے پولیس اہل کاروں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟وہ بھی تو ان ملزمان کے سہولت کار بنے ہوئے تھے! عین اس وقت بھاگ گئے جب ان کی اشد ضرورت تھی!

اپنا تبصرہ بھیجیں