منڈی سجنے والی ہے۔۔۔۔

تحریر: رشید بلوچ
غالباً یہ 2004 کا سال ہوگا،جنرل پرویز مشرف کا ستارہ مریخ کی بلندیوں پر تھا،ق لیگ والوں کے وارے نہارے تھے،مخصوص گھرانے پھل پھول رہے تھے،بلوچستان سے ق لیگ کے دو ایم پی ایز نے اوپر سے طے شدہ سینیٹ امیدوار کی 80 لاکھ روپے کی“ بخشش“ ٹھکرا کر اپنی من مرضی کے امیدوار سے ووٹو ں کی بولی ڈیڑھ کروڑ روپے میں لگا ئی تھی،پولنگ شروع ہونے کے ایک رات قبل انہیں کسی“اہم“ میٹنگ کیلئے طلب کیا گیا،دونوں ایم پی ایز کو جائے مقصود پرپہنچنے سے پہلے ہی رستے میں دبوچ لیا گیا، ساری رات”میٹنگ“ ہوتی رہی، پولنگ ختم ہونے کے محض ایک گھنٹہ پہلے دونوں ایم پی اے صاحبان کو ٹھیک بلوچستان اسمبلی کے اندورنی گیٹ کے سامنے اتار کر ووٹ کاسٹ کرنے کا کہا گیا،یہ ”میٹنگ“ کسی لگژری مکان یا پانچ ستارہ ہوٹل میں نہیں ہوئی تھی،میٹنگ میں دونوں سے کوئی بات چیت ہوئی نہ مذاکرات ہوئے،نہ ہی انہیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ انہیں ایک مخصوص گاڑی میں بٹھا یا گیا،ساری رات چلتی گاڑی میں انہیں خاموشی کا ساز سنا یا گیا،گاڑی میں دونوں ایم پی ایز اور ڈرائیور کے علاوہ کوئی شخص موجود نہیں تھا،دونوں صاحبان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ساری رات کوئٹہ کی گلیوں میں پھرایا گیا، ڈرائیور نے پوری رات ان سے کوئی بات چیت نہیں کی،انہیں گاڑی میں بٹھا تے وقت خاموش رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی تھی، پولنگ بوتھ جانے سے قبل انہیں ایک مضبوط پیغام دیا گیا کہ ووٹ کن کو دینا ہے؟ عوام کی ”غمخوار“ ہستیوں نے ایک اچھے بچے کی طرح چوں چرا کیئے بغیر اپنا“ حق“ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کرکے جمہوریت کا بول بالا کردیا۔
بلوچستان میں اس قسم کی بہت ساری کہی ان کہی کہانیوں کے پیوند شرفاء کے دامن میں لگے ہوئے ہیں ،بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسی کہانیوں کو خواب سمجھ کر اپنے دامن میں سمیٹے رکھتے ہیں،کسی کو اسکی بھنک تک نہیں لگنے دیتے لیکن انگنت ایسے کردار ہیں جو اپنا دامن اٹھا کر منہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور دامن میں چھپے خجالت بھرے راز آشکار ہوتے ہیں،مشرف ہی کے دور میں ایک“ عوامی“ نمائندہ سینیٹ انتخابات میں اچھا ”منافع“ وصولنے کے بعد خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوگیا تھا،دونوں ہاتھوں سے جھولی اٹھا کر منہ آسمان کی طرف کرکے کہنے لگا اے خدا نواب اکبر خان بگٹی اور سردارخیر بخش مری جیسے کرداروں کو زندہ رکھ تاکہ ہمارا بھلا ہوتا رہے۔
اب ایک بار پھر سینیٹ انتخابات کا دور دورہ ہے،منافع کمانے کا سیزن ہوا چاہتا ہے،ریاست مدینہ کے خلیفہ نے فرمایا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کی ایک سیٹ 70 کروڑ میں فروخت کیلئے منڈی سجائی گئی ہے،خلیفہ کی اپنی جماعت کے لوگ خیبر پختونخواہ میں نوٹوں کی گڈیاں بوریوں میں بھرتے پکڑے گئے ہیں،کے پی کے میں تو ڈھائی کروڑ کا فنڈا محض ٹریلرہے بلوچستان میں تو پوری فلم چلنی ہے اسے روکناخلیفہ وقت کی بس کی بات نہیں،اسے خلیفہ چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے کیونکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ایم این ایز کو جہانگیر ترین نے خلافت کیلئے جو شیرینی کھلائی تھی اسکی چاشنی کا مزہ ان کے پیروکار چکے بغیر کیسے رہ سکتے، یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ چیئرمین سینیٹ شیرینی کے بغیر اس منصب پر فائز ہوئے ہوں۔
سینیٹ کے انتخابات کے قریب آتے ہی ایک پرانی بحث دوبارہ موضوع بنی ہوئی ہے وہ یہ کہ بیلٹ اوپن کی جائے یا اسے خفیہ رکھا جائے؟،برسراقتدار جماعت تحریک انصاف اور اسکے اتحادی اوپن بیلٹ کیلئے سر دھڑ کی کوشش کر رہے لیکن اپوزیشن جماعتیں خفیہ رائے شماری کے حق میں ہیں،در اصل دونوں جانب منافقت اور دہرے معیار اپنا یا جارہا ہے،پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت میں متفق ہوگئے تھے سینیٹ انتخابات میں حق رائے دہی اوپن رکھا جائے گا تاکہ کسی قسم دھاندلی یا ہارس ٹریڈنگ کو روکا جاسکے،گزشتہ 15سالوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کو ایک،ایک بار حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن دونوں جماعتوں نے اپنے ہی متفقہ میثاق سے رو گردانی کی،اس رو گردانی کی وجہ بھی یہی تھی تاکہ سینیٹ میں ووٹ کی خرید فروخت کیلئے آپشن کھلا رکھا جاسکے، دوسری جانب حکومت میں اوپن بیلٹ والا موقف جمہوریت کیلئے نہیں بلکہ یہ مروڑ اس لئے ہے کہ خلاف توقع ووٹ دینے والوں کے خلاف مستحکم پھندا تیار کیاجاسکے،حکومت واقعی اوپن بیلٹ ووٹنگ کیلئے سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کو کالعدم قرار دینا چاہئے کیونکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹ میں مرحوم میر حاصل خان بزنجو کامیاب ہوگئے تھے اور موجودہ چیئرمین سینیٹ کو شکست ہوئی تھی۔
انتخابات میں پیسے کا دھندا پرانی ریت ہے اسے صرف سینیٹ سے نتی کرنا غیر منطقی ہوگا،عموماً عام انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کیئے جاتے ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن کے قوانین میں 20لاکھ روپے سے زائد اخراجات کی اجازت نہیں ہوتی،عام انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کرنے والے ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ اپنی انویسٹمنٹ منافع سمیت وصول کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں