زہر قاتل

انورساجدی

جام صاحب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ موجودہ بحرانی کیفیت میں وفاقی حکومت نے ابھی تک بلوچستان کی کوئی مدد نہیں کی ہے اور نہ ہی این ڈی ایم اے نے کسی قسم کا تعاون کیا ہے اگر یہ بات درست ہے تو جام صاحب بتائیں وہ مرکزی سرکار سے یک طرفہ محبت میں کیوں گرفتار ہیں باپ پارٹی کی اتنی طاقت ہے کہ اس کے بغیر مرکزی حکومت کا قائم رہنا مشکل ہے لیکن جام صاحب اپنی اس سیاسی و پارلیمانی طاقت کو استعمال کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ اس سے مشکل وقت بلوچستان پر اس سے پہلے کبھی نہیں آیا ایک طرف تو وفاق نے زبردستی افغان و ایران بارڈر کھلوا کر بلوچستان کو کرونا کا شکار بنوایا دوسری طرف اس نے بلوچستان کے لاکھوں عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے صوبے کا یہ حال ہے کہ یہاں پر نہ تو مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کے انتظامات ہیں اور نہ ہی علاج و معالجہ کی سہولتیں موجود ہیں اگر کرونا کی وباء مزید پھیل گئی اور آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی تو جام صاحب کیا کریں گے امداد کیلئے کہاں جاکر ہاتھ پھیلائیں گے وہ فیلڈ میں جانے پر یقین نہیں رکھتے وٹس اپ پرنہ امداد ملے گی اور نہ زمینی حقائق کا درست ادراک ہوسکے گا۔
جس طرح باقی لوگ امید پر قائم ہیں اسی طرح جام صاحب بھی اس آسرے میں ہونگے کہ وزیراعظم نے جو کرونا ریلیف فنڈ کا اجراء کیا ہے اس کا کچھ حصہ بلوچستان کو بھی ملے گا لیکن تب تک کیا ہوگا۔
تفتان چمن اور دیگر راستوں سے لوگوں کی ایران اور افغانستان سے آمد جاری ہے حکومت کے پاس یہ استعداد نہیں کہ وہ یہ کھوج لگا سکے کہ وباء بلوچستان میں کس حد تک سرایت کرچکی ہے اگر باقی اضلاع میں خیر ہو تو بھی کوئٹہ میں یہ بلاموجود ہے کیونکہ سینکڑوں زائرین حالیہ دنوں میں ایران سے آئے ہیں اور وہ ٹیسٹ کئے بغیر اپنے گھروں میں مقیم ہیں اگر یہ لوگ متاثر ہوئے تو کوئٹہ کے شہریوں کا بچنا مشکل ہے۔
اگرچہ شروع میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے تفتان میں داخل ہونے والے زائرین کی خدمت پر بلوچستان حکومت کی تعریف کی تھی لیکن مرکز اور پنجاب سے مسلسل ایسی آوازیں آرہی ہیں جن میں ناقص انتظامات پر بلوچستان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے خاص طور پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے حکومت بلوچستان کو نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے شہباز شریف کرونا وائرس پھیلنے کا سن کر لندن سے واپس آئے تھے لیکن عمران خان نے ساری اپوزیشن کو دھتکار کر نیک نامی کمانے کی کوشش کو ناکام بنادیا وہ ریلیف ورک اپنے جیالے کارکنوں کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں اس سے ان کو دو فوائد حاصل ہونگے ایک تو ان کے ہزاروں بے کار یوتھ کام پر لگ جائیگا خدمت کی خدمت ہوگی کچھ پیدافنا بھی ہوجائے گاعوام کو دانہ پانی ملے نہ ملے اس بات کا انتظام ضرور ہوگاکہ تحریک انصاف کے ہمدرد ووٹر اور حلقے ضرور اس امداد سے مستفید ہوجائیں۔
ابھی تک وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے امداد فنڈز ریلیف اور راشن پہنچانے کے اعلانات محض زبانی کلامی ہیں۔
لاک ڈاؤن کو دو ہفتے ہونے کو ہیں غریب لوگوں اور دیہاڑی دار طبقے کی بری حالت ہے ہر طرف فاقے ہی فاقے ہیں جب تک ریلیف پہنچے گا بڑی تعداد میں غریب بوڑھے اور کمسن بچے غذا نہ ملنے سے ہلاک ہوجائیں گے وزیر اعظم اپنی ذات کے سوا کسی کو درخود اتمنا نہیں سمجھتے ان کا سر اتنا اونچا ہے کہ کرونا کی تباہ کن وباء بھی اسے نیچے نہیں لاسکا گو کہ اپوزیشن ابھی تک حکومت کو تعاون کی پیشکش کررہی ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب وہ تنگ آکر حکومتی اقدامات پر تنقید شروع کردے گی پھر تحریک انصاف کے جنونی کارکن اور اپوزیشن جماعتوں کے ہمدرد ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونگے اگر وباء مزید پھیلی تو حالات زیادہ خراب ہوگئے تو حکومت کیلئے انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ حالات خانہ جنگی جیسے ہوجائیں گے آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے مشیر اطلاعات آپاں فردوس کی بھک بھک سے تنگ آکر تجویز پیش کی ہے کہ انہیں قرنطینہ کردیا جائے تاکہ ملک میں فساد برپا نہ ہو شنید ہے کہ کئی وزراء وزیراعظم کی محاذ آرائی والی پالیسی سے عاجز آچکے ہیں سائنس کے وزیر فواد چوہدری نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی تعریف کرکے گو یا وقت آنے پر شمولیت کی پیشگی درخواست دیدی ہے ندیم افضل چن کی آڈیو تو پہلے ہی وائرل ہوچکی ہے وزیر خارجہ بھی سخت نالاں نظر آتے ہیں وزیراعظم اپنی پارٹی کے وزراء اور مشیروں کی بجائے غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کی بات زیادہ مان رہے ہیں کرونا کی وجہ سے لاکھوں زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں لیکن مشیر اور وزیر معیشت کی بحالی اور ایکسپورٹبڑھانے کی تراکیب بتارہے ہیں ایسے وقت میں جبکہ دنیا کے تمام ممالک لاک ڈاؤن کئے بیٹھے ہیں دنیا کی تمام ایئر لائنز گراؤنڈہو گئی ہیں تمام ممالک کی زمینی اور فضائی رابطے منقطع ہیں ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی اور کن ملکوں کو جائے گی اس وقت تو ہنگامی طور پر کرونا کے کنٹرول کی آلات کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان تو ماسک تک نہیں بناسکتا اور نہ ہی ٹیسٹنگ کٹ تیار کرسکا ہے وہ اس سلسلے میں خود دیگر کا محتاج ہے بھلا اس کی کونسی چیز باہر جاکر بکے گی لگتا ہے کہ حکومتی مشیر اور وزیر عقل سے پیدل ہوچکے ہیں بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں اس لئے نہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ اگر فاقے بڑھ گئے تو حکومت کے خلاف عوامی بغاوت ہوگی لیکن اگر حالات اسی طرح رہے تو بغاوت ہو نہ ہو بلوے ضرور ہونگے اور ان کا آغاز کراچی سے ہوا چاہتا ہے اس وقت تمام تحریکی ایم این اے سینیٹرز اور ایم پی اے حضرات گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں اور وہ عوام کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں حکومت کی بڑی خوش قسمتی ہوگی اگر خدا کرونا کی وباء اسی سطح پر روک دے ورنہ اس حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے وزیراعظم نے تو لاک ڈاؤن کے خیال کو مسترد کردیا ہے جبکہ سندھ حکومت جزوی لاک ڈاؤن کو مزید ایک ہفتہ کی توسیع دے رہی ہے دوسرا ہفتہ شروع ہونے کے باوجود سندھ حکومت ابھی تک عوام کو ریلیف پہنچانے میں ناکام ہے البتہ اس نے کرونا کی ٹیسٹنگ کی استعداد ضرور بڑھائی ہے اور علاج کیلئے ڈاکٹر شمسی کی پیسوامیونائزیشن کی تجویز منظور کرلی ہے جبکہ صحت کے بارے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے یہ ازکار رفتہ طریقہ کار ہے۔
لندن اور نیو یارک میں بیٹھے ماہرین دنیا کو بہت ڈرا رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ کرونا اتنی جلدی ختم نہیں ہوگا یہ وائرس وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہے گا جیسے کہ چین نے اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا لیکن وہاں پر یہ دوبارہ پیدا ہوگیا ادھر یہ دعویٰ بھی باطل ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ اسرائیل اور روس نے اس کی ویکسین تیار کرلی ہے خود اسرائیل اور روس میں سینکڑوں لوگ کروناکے شکار ہوگئے ہیں اس وقت تمام عالمی لیڈر چپ ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم آئے دن قوم سے خطاب کا شوق پورا کررہے ہیں ٹرمپ نے تو دو روز قبل کمال شاہکار بیان دیا ان کا کہنا تھا کہ ماہرین کے مطابق امریکہ میں 22 لاکھ لوگ کرونا کی وجہ سے لقمہ اجل بن سکتے ہیں لیکن ان کی کوششوں سے اتنا ہوا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ تا دو لاکھ سے زائد نہیں بڑھے گی کیا کمال کے لیڈر ہیں ٹرمپ صاحب گویا دو لاکھ امریکی شہریوں کی موت ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
گزشتہ روز روسی صدر پوٹن نے عالمی رہنماؤں کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ کرونا وائرس پھیلانا ان سازشوں کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا کی آبادی کو کم کرنا ہے ان کا اشارہ 1960ء کی دہائی میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی اس تجویز کی طرف تھا کہ دنیا کی آباد کو کم کرنا امریکی سلامتی کیلئے بہت ضروری ہے اگرچہ پوٹن نے کوئی شواہد پیش نہیں کئے تاہم انہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک کو تنبیہ کی کہ اپنے مکروہ عزائم سے باز آجاؤ ہم آپ کی سازشوں کو سمجھ چکے ہیں آپ انسانیت پر رحم کھائیں ورنہ آپ خدا کے عذاب میں آجائیں گے پوٹن کا اشارہ واضح ہے کہ کرونا وائرس بڑی طاقتوں نے بنایا ہے اور اس کا مقصد غریب ممالک کے کروڑوں لوگوں کو مارنا ہے کیونکہ وہ دنیا پر بوجھ ہیں گوکہ امریکہ اور برطانیہ نے کئی بار اس بات کی تردید کی ہے کہ کرونا وائرس ان کی لیبارٹریوں میں تخلیق کردہ ہے واضح رہے کہ ووہان میں کرونا پھیلنے کے بعد چین نے الزام لگایا تھا کہ جو امریکی فوجی اسپورٹس ایونٹ میں شرکت کرنے آئے تھے انہوں نے یہ وائرس چھوڑا ہے اب جبکہ امریکہ خود اس وباء کا مرکز بن گیا ہے تو عمومی طور پر اس الزام کو غلط سمجھا جارہا ہے ورنہ خود امریکہ اس آفت کا شکار نہ ہوتا لیکن تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں خود اس میں گر جاتے ہیں شروع میں کرونا کے مبینہ سرمایہ کار بل گیٹس نے بیان دیا تھا کہ اگر یہ وائرس افریقہ پہنچ گیا تو وہاں پر کم از کم دو کروڑ لوگ ہلاک ہوجائیں گے لیکن ابھی تک افریقہ میں اموات سب سے کم ہیں بلکہ بروانڈی افریقہ کا واحد ملک ہے جہاں کرونا کا ایک کیس بھی منظر عام پر نہیں آیا جہاں تک ہنری کسنجر کے خیال کا تعلق ہے تو یہ بنیادی طور پر یہودی فلسفہ کا حصہ ہے کہ دنیا کی قیادت اور رہبری کا حق صرف یہودیوں کو ہے اب امریکہ میں اس خیال میں ترمیم کردی گئی ہے وہاں پر صدر ٹرمپ نے سفید نسل کی برتری کی تحریک شروع کردی ہے وہ مودی کی طرح اپنے ہی ملک کو افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار بنارہے ہیں ان کے دل کی بات یہ ہے کہ صرف گوری نسل کو دنیا کی رہبری کا حق حاصل ہے یہ جو کالے سیاہ اور رنگ دار ایشیائی لوگ ہیں یہ دنیا کی ترقی اور سفید فاموں کی خوشحالی کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کا مرنا ہی دنیا کیلئے اچھا ہے صدر ٹرمپ ایک طرف نسل پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کا ماننا ہے کہ آزاد میڈیا کا وجود بھی دنیا کیلئے خطرے کا باعث ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ٹرمپ میڈیا کے خلاف زہر نہیں اگلتے ان کی دیکھا دیکھی پاکستان کے وزیراعظم بھی آزاد میڈیا کے سخت مخالف بن گئے ہیں وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میڈیا دنیا کا سب سے آزاد میڈیا ہے اوروہ ان کا مخالف اس لئے ہے کہ وہ ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں وزیراعظم کی کوشش ہے کہ چند ایک اخبارات اور گنے چنے چینلوں کے علاوہ دیگر میڈیا نہیں ہونا چاہئے وزیراعظم کا پکا خیال ہے کہ نام نہاد اپوزیشن سے زیادہ ان کی حکومت اور مستقبل کے منصوبوں کو میڈیا سے خطرہ ہے حتیٰ کہ وہ میڈیا کو کرونا وائرس سے بھی زیادہ مہلک سمجھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں