اوپن بیلٹ اور ضمیر کی آزادی!!

تحریر: راحت ملک
موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے روبرو ایک مشاورتی سوال بذریعہ صدارتی ریفرنس برائے رائے پیش کیا تھا حکومت بوجوہ آئین کی شق226 کی عملاً انحراف کی آرزو مند تھی۔ اور ہے۔ برائے مشورہ پیش کیا گیا سوال تو بہت سادھ اور سہل تھا کہ آیا آئین میں تبدیلی، ترمیم کئے بغیر کیا سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کے قوانین میں ترمیم کر کے منعقد کرانا ممکن ہے؟ تاہم معزز عدالت میں دوران ٍ سماعت اس کو پیچیدہ و کثیر پہلو بنا گیا حالانکہ سوال ہذا تاحال بہ اصرار بین السطور میں از خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ غیر مبہم آئینی شق226 ہے (جس کا براہ راست حوالہ ریفرنس میں موجود نہیں) لکین ملک کے سپریم لاء کی حیثیت سے حکومتی ارادے اور خواہش کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ ہے۔ بادی النظر میں معزز و محترم اعلیٰ عدلیہ کو اس مشاورتی سوال پر غورکرنے سے فی الفور انکار کرتے ہوئے ریفرنس صدر مملکت کو واپس بھجوانا دینا چاہئے اس پر تنہیی نوٹ بھی تحریر ہونا چاہئے۔
جناب صدر مملکت نے ماضی کی طرح اس بار بھی ریفرنس دائر کرتے ہوئے اس کے مطالعہ کی زحمت اٹھائی اور نہ ہی اپنا ذہن استعمال کیا ہے خیر یہ میری آرزو مندانہ رائے ہے یقینا عدلیہ کو قانون دان ہی درست مشورہ معاونت فراہم کر سکتے ہیں میری جراتمند اظہار کی بنیاد ملک کے سینئر وکلاء اور سابق ججر و لاء افسران کی کھلے عام بیان کردہ آراء پر منحصر ہے پھر یوں ہوا اور کیونکر ہوا سے دامن بچاتے ہوئے بصد احترام کہنا چاہتا ہوں کہ معزز عدلیہ زیر غور سوال کا جواب تلاش کرنے میں سرگرداں ہوئی تو محسوس ہو رہا ہے کہ نظریہ ضرورت کے از سر نو احیاء کی
سعی ٍلاحاصل ہو رہی ہیکیونکہ عدلیہ نے استدعا کئے گئے سوال کو سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے واقعاتی پہلوؤں کے ساتھ جوڑ کر اپنے لئے سوالات کی پیچیدہ تر گھتی ترتیب دے لی ہے- سماعت کے دوران سامنے آنے والے عدالتی تبصروں سے ملک بھر کے قانونی و سیاسی حلقوں میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی تھی قابل اطمینان بات ہے کہ آج 24 فروری کی سماعت میں قابل صد احترام چیف جسٹس نے ببانگ دھل کہہ دیا ہے کہ اگر آئین خفیہ رایے شماری کآ کہتا تو پھر آئینی رایے مقدم ہوگی۔ اس میں ردوبدل پارلیمنٹ کا استحقاق ہے عدلیہ کا نہیں۔ بلاشبہ آئین کی شق 226 خفیہ رائے شماری کا حکم لگاتی ہے تو یہ یقین رکھنا چاھیے کہ اب زیر غور سوال منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اس سے پیشتر
یہ کہا جا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اب تک سینیٹ انتخابات میں روپے پیسے کے استعمال کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا اور یہ کہ اب عدلیہ اس حوالے سے بھی جائزہ لے گی اگر میں غلطی پر نہیں تو یہاں معزز ججز اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کہ گویا وہ آئینی رٹ پٹیشن کی سماعت ففرما رہے ہیں حالانکہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے محض مشورہ طلب کیاہے حکم نہیں جبکہ مشورہ کبھی بھی حکم کا درجہ نہیں رکھتا!
سماعت کے دوران بینچ نے 226پر توجہ مرکوز رکھنے کے برعکس آرٹیکل 59 کی ذیلی شق 2 پر بحث چھیڑ دی جہاں واحد قابل انتقال متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخاب کی بات کی گئی ہے-
سوال اٹھا کہ اگر متناسب نمائندگی کے تحت ہی سینیٹرز تعینات ہونے ہیں تو پھر انتخابی عمل کی کیا ضرورت ہے؟ صوبائی اسمبلی میں جس پارٹی کی جتنی عددی حیثیت ہے اسے اسی تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی مل جانی چاہئے!!-
ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ متذکرہ صدر ذیلی شق میں واحد قابل انتقال کی بات کی گئی ہے وہ متناسب نمائندگی کے دوسرے پیہرائے کو فوقیت دیتی ہے یہاں متناسب نمائندگی کیلئے لسٹ سسٹم برویکار لانے کا معاملہ نہیں جیسا کہ خواتین و اقلیتی یا ٹیکنوکریٹ کی مختص نشستوں کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر لسٹ سسٹم کو سینیٹ کے انتخاب کے لیے اپنا لیا جائے تو پھر اسمبلیوں میں کم تعداد رکھنے والی جماعتوں کی نمائندگی کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے مثال کے طور پر اس وقت پنجاب میں ایک سنیٹر کی انتخابی کامیابی کیلئے جتنے ووٹ درکار ہیں قاف لیگ کے پاس اتنے ارکان اسمبلی نہیں اگر متناسب نمائدنگی کے اصول کو لسٹ سسٹم (پہلے سے ترجیحی بنیاد پر سینیٹ کیلئے جمع کرائی گئی پارٹی لسٹ) کے ساتھ مدغم کر دیا جائے تو قاف لیگ کو موجودہ صورتحال میں سینیٹ کی ایک نشست بھی نہیں مل سکتی لیکن واحد قابل انتقال ووٹ کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ارکان مطلوبہ تعداد میں ووٹ دے کر جناب کامل علی آغا کو سینیٹر منتخب کرالیں گے- اور یہ عمل کرپٹ پریکٹس شمار نہیں ہوگا بلکہ یہ دو سیاسی اتحادی جماعتوں کا باہمی تعاون کہلانے گا جس کی سیاسی اصول کے تناظر مرستائش کرنی چاھیے
بلوچستان اسمبلی میں جہاں سیاسی تقسیم زیادہ مگر ارکان اسمبلی کی تعداد دیگر صوبوں سے کم ہے ساڑھے چھ ووٹ ایک سینیٹر منتخب کرانے کیلئے درکار ہوتے ہیں وہاں سیاسی جماعتیں باہمی اعتماد و تعاون سے ایک انتخابی مرحلے میں اپنی اتحادی جماعت کو ووٹ دے دیتی ہیں اور بعد ازاں دوسری بار وہی اتحادی جماعت پہلی جماعت کے تعاون کا بدلہ چکا دیتی ہے-
قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو پہلی بار جب سینیٹر منتخب ہوئے تو نیشنل پارٹی نے مطلوبہ ووٹ دیگر جماعتوں سے حاصل کئے اس عمل میں سیاسی مفاہمت تعاون اور شخصیتی پہلو موثر کردار ادا کر رہا تھا نہ کہ نوٹ یا خریداری –
محترم ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی باہمی سیاسی جماعتی تعاون کی وجہ سے ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تھے ایسی بیسیوں مثالیں مزید پیش کی جا سکتی ہین جن میں کم عددی پوزیشن والی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر تعاون کر کے اپنے ارکان کو ایوان بالا میں نمائندگی دلاتی ہیں اور یوں وہ مرکزی فیصلہ سازی آئین و قانون سازی میں شریک ہو کر وفاقیت کے اصولوں و نظام کو تقویت پہنچاتی ہیں –
یہ سمجھنا کہ کم تعداد رکھنے والی جماعت اگر اپنا سینیٹر منتخب کرالے تو لازمی طور پر اس عمل میں سرمایہ نوٹ اور خرید و فروخت کا عنصر شامل ہوتا ہے مکمل سچائی نہیں البتہ بعض واقعات کو استنثا ضرور حاصل ہے جیسا کہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں ہوا جب نوٹ اور خلائی قوت کے اتحاد نے مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کی تمام نشستوں سے محروم کر دیا گیا تھا کے پی کے میں البتہ معاملہ برعکس تھا جسکی ویڈیو ان دنوں سیاسی ابلاغی و قانونی حلقوں دھوم مچی ہوئی ہے ملک فری مارکیٹ اکانومی پر چل رہا ہے مارکیٹ کا اصول کہتا ہے جو شئے بازار میں برایے فروخت موجود ہوگی اسکے خریدار یا صارف بھی ہونگے پی ٹی آئی کے ارکان تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے ووٹ کے بدلے رقم وصول کی۔ کس لیے کیسے اور کس کے کہنے پر یہ سوال تحقیقات کا طالب ہے چاہیے یہ پی ٹی آئی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرے وہ اپنا کیا دھرا انتخابی عمل پر دھر کر پوری آئینی سکیم منہدم کرنے پہ تل گئی ہے جو صحتمندانہ سیاسی سوچ کے منافی ہے
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے لے کر عدم اعتماد کی تحریک تک روپے پیسے اور طاقت کے رسوخ کا سلسلہ فعال رہا تھا جس سے پی ٹی آئی مکمل طورپر مستفید ہوئی تھی۔
حکومت کے پیش کردہ سوال کی غایت یہ ہے کہ سینیٹ کا انتخاب شو آف ہینڈ سے کرایا جائے یا خفیہ بیلٹ کو قابل شناخت بنا لیا جائے تاکہ بعد میں معلوم ہو سکے کہ کسی رکن نے پارٹی امیدوار کو ووٹ دیا ہے یا نہیں؟
جمہوری اصول دنیا بھر میں رائے دہندہ کی رائے کو دائمی طور پر خفیہ رکھنے کی جانب گہرا فکری رجحان و عملی نظام رکھتا ہے یہی طریقہ رائے دہندہ اور اس کی رائے کی حفاظت یقینی بناتا ہے آئین میں وزیراعظم کے انتخاب، عدم اعتماد کی تحریک اور بجٹ کی منظوری کیلئے اراکین کو پارٹی ڈسپلن کے مطابق ووٹ دالنے کا پابند کیا گیا دیگر امور پر انہیں آئین اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق رائے دینے کی مکمل آزادی عطا کرتا ہیالبتہ شاید پولیٹیکل ایکٹ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عمل کا پابند بناتا ہے –
آئین میں ووٹ دیتے ہوئے جن امور پر پارٹی ڈسپلن کی قدغن ہے ان کی خلاف ورزی ہر پارٹی سربراہ سپیکر یا چیئرین کو جیسی بھی صورتحال ہو متعلقہ رکن کو نااہل قرار دینے کی درخواستدے سکتا ہے سپیکر یا چیئرین ایسی درخواست کو مزید کارروائی کیلئے الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا پابند ہے –
اب سوال یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ شفافیت کے قیام اور خرید و فروخت کے الزامات سے مبرا ہو کر سینیٹ انتخاب کو آئینی ترمیم کے بغیر انتخابی قواعد میں ضروری ردوبدل کے ذریعے قابل شناخت بیلٹ پیپر یا شو آف ہینڈ کے حق میں مشورہ دے دے تو کیا ایسی صورتحال میں اراکین اسمبلی کو اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ طور پر ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم کرنا نہیں پڑے گا؟
1973ء کے بنیادی آئین میں اراکین اسمبلی کو ضمیر کی آزادی کے مطابق قانون سازی میں رائے دینے کا مستحق قرار دیا گیا میا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اوپن بیلٹ کی حمایت کرتے ہوئے تمام متعلقہ حلقوں کو اراکین اسمبلی کے ضمیر کی آزادانہ رائے کے اظہار کو بھی ملحوظ رکھنا اور اسے تحفظ دینے کا مشورہ دینا چاہئے متناسب نمائندگی کے اصول کو لسٹ سسٹم بنانے کی بجائے (2)59 کے مطابق واحد قابل ِ انتقال ووٹ کے رائج طریقہ کار کو بدلنے سے احتزاز کرنے میں ملک وفاقیت پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بقا ہے درپیش ملکی سیاسی بحران و عدم استحکام کے لیے شفا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں