شاملو بلوچ سے سیاست دانوں کی گمشدگی کا پتہ

صادق صبا
گھر بیٹھے جب بوریت نے گھیرا تنگ کیا تو میں اپنے پرانے دوست شاملو بلوچ کے گھر گیا , شاملو مجھے دیکھ کر خوش ہوئے تو مجھے عجیب لگا کیونکہ شاملو بلوچ تو پہلے سے ہروقت مہنگائی کا ڈسا ہوا اور میری حاضری مطلب چائے . دوسرا ہماری دوستی کا خاصاہم ایک بات پہ اتفاق کرتے ہیں کہ ہم دونوں کسی بات پہ اتفاق نہیں کرتے . لیکن آج بوریت کے مارے ہم دونوں ایک ہی کشتی کے مسافر تھے . میں نے کہا شاملو بھائی یہ بہت برا ہورہا ہے . کہ ایک سال پہلے ہمارے شہر میں سیاستدان ٹڈی دَل کی طرح آ ٹپکتے تھے لیکن آج جب عوام انھیں ڈھونڈ رہی ہے تو لگتا ہے گوہر نایاب کی طرح کمیاب ہوگئے ہیں .
شاملو نفی میں سر ہلاتے ہوئے فرمانے لگا یہ جتنے آپ جیسے لوگ  ہیں  جواٹھتے بیٹھتے سیاسی لیڈروں کی مانگ کررہے ہیں , بات بے بات یہ کہاں وہ کہاں  کی دعائیاں دے رہے ہیں دراصل ان کی نیت خراب ہے . یا تو انھیں سیاسی لیڈران راس نہیں آرہے یا ان کے چمچے , کیونکہ روشنی کو دیکھ کر  پروانے تو آئیں گے اب کسے خبر کہ کونسا پروانا اپنے خوبصورت پروں , میرا مطلب تیز طرار زبان کے پیچے کرونا وائرس کا فوج ظفر موج مورچہ زن کئیے ہوئے ہے ؟
شاملو صاحب وائرس اور خوف کی فضا میں وہ آئیں تسلی دیں اور راشن دیں . مزدوروں کی دل جوئی کریں . آخر وہ ہمارے لیڈر ہیں تو قیادت کریں .
شاملو کے چہرے پہ آنے والی زہر آلود شکنیں اس کی تلخی کا پتہ دے رہی تھی . اس نے کہا ” صادق صاحب آپ جب یہ لیڈر اور قیادت کی بات بلوچ سرزمین میں کرتے ہیں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے . لیڈر کے حروف سے ناواقف لوگوں کو لیڈر کہوگے تو راشن کے بھاشن ہی سے پیٹ بھرنا پڑے گا .
رہی بات تسلی اور راشن کی , تو وہ خود بقول اقبال کے گدا ہیں . خود مانگنتے ہیں.
مانگنے والا گدا ہے , صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نا مانے میر و سلطان سب گدا
اب گدا تو دینے والا نہیں , ہاں البتہ کچھ کچھ بیرونی امداد , کچھ کچھ این جی اوز کی سن گن ہو تو انشاءاللہ آپ پیچے پیچے اپنے سیاستدانوں کو بھی پائیں گے . کیونکہ کچھ بانٹنے اور کچھ سمیٹنے کا وقت ہوتا ہے . علاوہ ازیں آپ کو وہ پروانے بھی نظر آئیں گے .
عالی جناب بات جو بھی ہے لیکن عوام بھوک سے مررہی ہے , اگر یہ اب نہیں آئے تو اس دفعہ الیکشن میں یہ ہار جائیں گے .
شاملو پھر ہنس دئیے اور کہا ” میرے معصوم دوست ووٹر آپ جیسے معصوم ہوں تو جنہوں نے اب تک بھٹو کو زندہ رکھا , جنہوں نے سرداروں کے پیروں میں سر رکھنا ہی سیکھا ہو . تو یہ تکلیف بھی آپ بھول جائیں گے . اور جب آپ کو یاد دیا جائے آپ پچھلی بار کی طرح کہو گے . ” شام کے مردے کو کب تک روئے ” تو جناب آپ ووٹ بھی دوگے , جتواؤگے بھی اور اسمبلی پہنچاؤ گے بھی لیکن آپ کو اپنے مسائل آخر میں خود حل کرنے پڑھیں گے .
میں ایک راز بتاؤں یہ خیرات ویرات مت لینا . لگتا ہے آپ نے اقبال کو صرف پڑا ہے عمل نہیں کرتے حالانکہ وہ کہتا بھی ہے عمل سے زندگی بنتی ہے . اور………. "شامو……….” شاملو کی بیوی نے آواز دی اور شاملو پٹ سے اٹھا جٹ باورچی خانے پہنچا .
میں نے اتنا سنا اور اٹھ کے چلا آیا کہ ” شامو پہلے کونسے راشن سے اسٹارٹ کریں , فوجی والے , سیٹھ رحمان والے یا کمشنر صاحب کے ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں