الٹی گنتی

تحریر: انورساجدی
وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ن لیگی رہنماؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا دراصل اپوزیشن کیلئے ایک پیغام تھا کہ اگر اس نے لانگ مارچ کیا یا دھرنا دیا تو تحریک انصاف کے مشتعل کارکن ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں گے اس واقعہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ عمران خان اقتدار کی باقی مدت یعنی سوادوسال اسی طرح گزاریں گے یہ دور ایکشن ماردھاڑ ایک دوسرے پر چڑھائی سے بھرپور ہوگا کہیں شعلے کا گبرسنگھ دکھائی دے گا کہیں مولاجٹ اپنے زنگ آلود کلہاڑے کے ساتھ نظرآئیگا کیا کرے تحریک انصاف کی مجبوری ہے اسکے پٹارے میں کوئی کارکردگی نہیں ہے وہ اپنے کارکنوں کو کرپشن کے بیانیہ پر مطمئن رکھنے کی کوشش کررہی ہے اس کی ایک جھلک اعتمار کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد عمران خان کی تقریر میں نظرآئی انہوں نے کہا کہ زرداری سب سے زیادہ رشوت دینے والا ہے اس کے باوجود کہاجاتا ہے کہ
ایک زرداری سب پہ بھاری
نوازشریف35سال سے ملک کو لوٹنے والاڈاکو
فضل الرحمن دونمبرکرپٹ شخص
آخر میں انہوں نے یہ گردان دھرائی کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا این آر او نہیں دوں گا حالانکہ اعتماد کاووٹ حاصل کرنے کیلئے وہ خود کو این آر او دے کر آئے تھے وہ دو ایم این اے جو حیدرگیلانی کے ساتھ بیٹھ کر بھاؤ تاؤ کررہے تھے یا وزیراعظم کے بقول یوسف رضا گیلانی کے انتخاب میں تحریک انصاف کے16اراکین نے خود کو بیچا تھا وزیراعظم نے اپنی کامیابی کی خاطر ان سب کو معاف کردیا لگتا ہے کہ عمران خان باقی مدت میں صرف اپنے آپ کو ہی این آر او دیں گے آئندہ چند روز میں سینیٹ کے چیئرمین کاجوانتخاب ہوگا اس موقع پر وزیراعظم کئی ارکان کواین آر او سے نوازیں گے کیونکہ سینیٹ میں حکومتی اتحاد اکثریت میں نہں ہے ووٹوں کی خریدوفروخت یا ”بزرگان“ کی حمایت وتعاون کے بغیر حکومت کے نامزد امیدوار میرصادق سنجرانی کیسے کامیاب ہونگے؟
وزیراعظم کے ہرایکشن میں تضاد نظرآتا ہے ان کا موقف ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں اوپن بیلٹنگ ہوتا کہ جس جماعت کا جو حق بنتا ہے اسکو اتنی نشستیں ملیں لیکن چیئرمین کے الیکشن میں وہ اپنے اس اعلیٰ اصول کو پامال کرتے نظرآرہے ہیں اگرصحیح ووٹنگ ہو تو سرکاری امیدوار نہیں جیت سکتے ہونا یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم اعلان کرتے کہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ اپوزیشن کا حق ہے لہٰذا حکومتی اتحاد اس میں حصہ نہیں لے گا لیکن اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے یہ اہم عہدہ حکومت کو ضرور چاہئے اور وہ اس سے دستبردار ہونے کوتیار نہیں ہے۔
جہاں تک وزیراعظم کے اعتماد کاتعلق ہے تو انہیں مطلوبہ تعداد یعنی172سے صرف6ووٹ زیادہ ملے اگر واقعی انہوں نے 178ووٹ حاصل کئے ہیں تو یہ کامیابی ”بڑوں“ کی مرہون منت ہے ویسے ایم این اے محسن داوڑ کے مطابق ووٹوں کی تعداد مشکوک ہے ایوان میں 178ارکان موجود نہیں تھے البتہ چھ غیر منتخب مشیر ضرور موجود تھے کیا پتہ کہ اسپیکر نے انہیں بھی گن لیا ہو۔
الٹی گنتی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ1988ء میں جب بلوچستان کی وزرات اعلیٰ کیلئے نواب اکبر خان بگٹی اور میرظفراللہ خان جمالی میں مقابلہ تھا تو اسپیکر سردار محمدخان باروزئی نے الٹی گنتی سے کام لیا تھا انہوں نے جمالی کے حمایت یافتہ اراکین کی گنتی اپنے سے شروع کی اور آخر میں اپنے کو دوبارہ شمار کرکے ایک ووٹ کی اکثریت سے ظفراللہ خان کو فاتح قراردیدیا۔ بعدازاں عدالت نے اس انتخاب کو کالعدم قراردیا تھا اور اسپیکر کی الٹی گنتی کومسترد کردیاتھا۔
وزیراعظم اپوزیشن کی حرکتوں سے خاصے پریشان تقریباً حواس باختہ اورسخت غصے میں ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں اپنا ووٹ غلط استعمال کیا جو مسترد ہوگیا۔
غالباً اپوزیشن کے شرارتی رہنما وزیراعظم کا اشتعال اورغصہ جان بوجھ کر بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ کوئی فاش غلطی کربیٹھیں تاکہ انکی حکومت رخصت ہوجائے اپوزیشن کے جواب میں وزیرداخلہ شیخ رشید دھمکی دیتے ہیں کہ کوئی تیسرا فریق آجائے گا اور اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا حالانکہ اس وقت تیسرا فریق ہی حاوی ہے وہ صورتحال کالطف اٹھارہا ہے سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہیں گھتم گھتا ہیں ایک دوسرے کو بے نقاب اور بے لباس کررہے ہیں غالباً تحریک انصاف کے گبرسنگھ والے تیور انہیں بہت اچھے لگ رہے ہیں کیونکہ اس سے ٹھاکر اور گبر دونوں مزید کمزورہوجائیں گے اور فیصلہ کااختیار ایمپائرز کے ہاتھ آجائیگا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چیئرمین عمران خان میں نہ سہی تو۔توبھی نہ سہی والے فارمولے پرعملدرآمد ہیں اگرکبھی ان سے اقتدار چھیننا گیا تو وہ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ پی ڈی ایم اقتدار میں نہ آسکے لیکن اقتدار کا فیصلہ تو آنے والے انتخابات کریں گے جب تک انجینئرنگ کے ذریعے انکے نتائج تبدیل نہ کئے جائیں تو حب منشا نتائج کا حصول ممکن نہ ہوگا عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ کسی بھی لاڈلے کیلئے انتخابی انجینئرنگ صرف ایک بار کی جاسکتی ہے خاص طور پر ایسے لاڈلے کیلئے جوشدید ناکامی سے دوچار ہو کیونکہ ایک تھکا ہوا بوڑھا اور زخمی گھوڑا ریس نہیں جیت سکتا ریس جیتنے کیلئے نئے گھوڑے میدان میں اتارنا ریس کا اصول ہے اگرآئندہ انتخابات میں کوئی انجینئرنگ کی گئی تو وہ نئے گھوڑے کیلئے ہوگی۔
ایک عجیب بات گردش کررہی ہے جو فی الحال ناقابل یقین ہے یا افواہ ہے لیکن یہ افواہ مارکیٹ میں چھوڑی گئی ہے جس کے مطابق ”بڑے“ جام کمال خان عالیانی کو ریس کے نئے گھوڑے کے طور پر دیکھ رہے ہیں باپ پارٹی پر بے انتہا دست شفقت اسی سوچ کا نتیجہ ہے راولپنڈی میں یہ خیال پایاجاتا ہے کہ جام صاحب کو اگر موقع دیا گیا تھا تو وہ کسی بھی امور میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کریں گے۔بلکہ شریفانہ طریقے سے حکومت چلائیں گے نہ اپوزیشن کو تنگ کریں گے نہ بیوروکریسی پر کوئی قدغن لگائیں گے اور نہ ہی کوئی اورطرح کی چھیڑخانی کریں گے۔یہ سوال ضرورموجود ہے کہ باپ پارٹی اتنی اکثریت کہاں سے لائیگی کہ وہ اپنا وزیراعظم بنواسکے لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر2002ء کے انتخابات میں نوزائیدہ ق لیگ کوبرسراقتدار لایاسکتا ہے یا تحریک انصاف کی نشستوں کو 13سے بڑھاکر150کیاجاسکتا ہے تو باپ کی 15سیٹوں کو130کرناکونسا مشکل ہے خیر سے ق لیگ،جی ڈی اے،ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتیں موجود ہیں وہ عین موقع پر کام آئیں گی کوئی ایسا انتظام کیاجائیگا کہ باپ کو پنجاب اور پشتونخوا میں کامیابی ملے اگر ایسا ہوا تو یہ ایک ”مکس اچار“ حکومت ہوگی۔
پرویز الٰہی دوبارہ نائب وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوجائیں گے کوئی اور ہو نہ ہو شیخ رشید ایک بار پھر متوقع حکومت کی زینت بنیں گے ویسے بھی آج کل ان کی وزارت سخت خطرے میں ہے کیونکہ عمران خان یوسف رضا کے مسئلہ پر ان سے ناراض ہوگئے ہیں۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اعتماد کاووٹ لینے کے بعد وزیراعظم نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور مصافحہ سے انکار کردیا ”کھسیانی بلی کھمبانوچے“ کے مصداق شیخ صاحب جیوٹی وی والوں کی منت سماجت کرکے اسی رات پروگرام جرگہ کے مہمان بنے اور وزیراعظم کے دفاع اور تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے ایسی تعریف اس سے پہلے وہ ضیاؤ الحق اور جنرل مشرف کی کرچکے ہیں ویسے بھی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد عمران خان اپنی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کرنے والے ہیں نئے وزراء میں گبرسنگھ اور مولا جٹ کی صفات رکھنے والے لوگ نمایاں ہونگے تاکہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے دوران پورا پنجاب میدان جنگ بن جائے اگر اسکے باوجود پی ڈی ایم والے ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو عمران خان انکے ساتھ ایسا سلوک کریں گے جو بھٹو نے اپنے دور میں لیاقت باغ میں این اے پی کے ساتھ کیا تھا۔
لیکن کیا”بڑے“ عمران خان کو اتنا فری ہینڈدیں گے کہ وہ طاقت کا بے محاسبہ استعمال کریں؟اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا البتہ جمعیت کے انصارالسلام اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کوممکنہ حملوں کوروکنے کیلئے تیاررہنا ہوگا کیونکہ ن لیگی کارکن حملہ کرنے اور حملہ روکنے کا تجربہ نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ انکے سرکردہ رہنماؤں کوپارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مار پڑی اور اس کے بعد لیگی کارکنوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں