آئین و حلف کی پاسداری اور مشکوک اعتماد

تحریر: راحت ملک
رواں سال میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کیلئے ناخوشگوار رہے جبکہ ڈسکہ کا انتخابی معرکہ انتخابی شکست سے زیادہ اثرات کا حامل رہا۔ جہاں انتخابی عملے کی گمشدگی نے برسراقتدار جماعت کے متعلق اپنائی گئیں خوش فہمیاں پوری طرح رفع کر دیں حکومت اس انتخاب کے بعد الیکشن کمیشن سے جس برے انداز میں الجھی گئی ہے اس کا دوسرا منظر سینیٹ کے انتخاب میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی کی فتح کے برعکس پی ٹی آئی ایم ایف کے مشترکہ امیدوار جناب حفیظ شیخ کی ہار کے بعد وزیراعظم کے رد عمل کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا-
حکومت نے سینیٹ انتخابات کا طے شدہ آئینی طریقہ کار بدلنے کی کوششیں کیں پارلیمان میں ترمیمی مسودہ پیش کیا تو مطلوبہ تعداد میں ارکان پورے نہ ہونے کی بناء پر سیاسی تدبر کا تقاضا تھا کہ حزب اقتدار حزب اختلاف کے ساتھ گفت وشنید کر کے باہمی اتفاق رائے پیدا کرکیآئینی ترامیم منظور کراتی۔ لیکن حکومت کے سینئر سیاستدان مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایوان میں برملا اعتراف کر لیا کہ ” حکومت نے آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کر کے حزب اختلاف کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ترمیم منظور کرانے کے لیے مطلوب عددی قوت تو ہمارے پاس تھی ہی نہیں!!” جناب شاہ محمود قریشی سمیت پوری حکومتی ٹیم کا جو بعد ازاں اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتی رہی کا اشارہ میثاق جمہوریت کی ایک شق کی طرف تھا جس پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بالاتفاق دستخط کئے تھے طے کیا تھا کہ سینیٹ کا انتخابی طریقہ کارکو شو آف ہینڈ سے بدلیں گے۔ میثاق جمہوریت محظ اس ایک شق کا نام تو نہیں تھا۔ المیہ ہے کہ حکمران جماعت نے اس اس پہلو کو بری طرح نظرانداز کیے رکھا ہے۔ میثاق ِجمہوریت تو ایک بڑا سیاسی پیکیج ہے حکومت جس طرح میثاق جمہوریت سے انحراف کے طعنے دیتی رہی ہے اس سے تاثر ابھرا کہ شاید پی ٹی آئی نے بھی میثاق جمہوریت کو من حیث المجموع قبول کر لیا ہے ظاہر ہے معاملہ یوں نہیں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت انتخابی عمل کو شفافیت کے نام پر خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کو بدلنا چاہتی ہے تو اسے میثاق جمہوریت کی تمام شقوں پر مشتمل آئینی ترامیم کا مسودہ پارلیمان میں لانا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاے۔ جناب شاہ محمود قریشی کے محولا بالا اعتراف سے درحقیقت آئین کے احترام و بالادستی بارے حکومتی سوچ عزائم اور رویے کی کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی تھی پھر بھی حکومت نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے خفیہ رائے شماری ختم کرانے کی کوشش کی مگر عدالت کی رائے کا انتظار کئے بغیر ایک صدارتی فرمان جاری کردیا جسے مشروط طور پر نافذ العمل ہونا تھا -عدلیہ نے صدارتی فرمان کو رد کردیا. تاہم
ریفرنس کی سماعت میں غیر ضروری طوالت پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف رہی۔ سپریم کورٹ نے وفاقی الیکشن کمیشن سے رائے طلب کی چیف الیکشن کمیشنر نے آئین کی دفعہ 226 کی موجودگی میں سینیٹ انتخاب کا طریقہ بدلنے سے انکار کر دیا یہ موقف آئین کے عین مطابق تھا جس کی بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوہے توثیق کر دی تھی لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ سینیٹ میں جناب حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشنکے اس کردار شدید تنقید کی۔ جس کے تین پہلو تھے –
ان کا فرمانا تھا کہ اپوزیشن کی جیت میں کرپشن ہوئی ہے یہ کہ ان کی پارٹی کے ارکان کو پیسے کے بل بوتے پر منحرف کیا گیا تھا اگر الیکشن کمیشن بیلٹ پر بار کوڈ لگا لیتا تو آج ہمیں اپنے ارکان کو شناخت کرنے میں سہولت ہو جاتی۔”
وزیراعظم کی تنقید کا وہ پہلو زیادہ بھیانک تھا جب انہوں نے چیف کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ نے کس بنیاد پر خفیہ رائے شماری کی حمایت کی؟ کیا کوئی قانون بدعنوانی کی اجازت دیتا ہے؟ "
وزیراعظم نے الیکشن کمیشن پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ
” جمہوریت کو نقصان ہوا ہے نیز ہمارے بکنے والے 16ارکان کو بھی بچا لیا گیا ہے،،۔
وزیراعظم تنقید کرتے ہوئے جوش خطابت میں بھول گئے کہ اسی خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کے ذریعے ان کی نامزد خاتون امیدوار محترمہ فوزیہ زیادہ ووٹ لے کر جیت چکی ہیں۔ طرفہ تماشہ ہے کہ تین روز بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے قبل اپنے انہی بکے ہوئے 16ارکان کو معاف فرما دیا تاکہ وہ اعتماد کے لیے وزیراعظم کو ووٹ دیں یوں وہ قومی اسمبلی سے 178 ارکان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے واضح رہے کہ مذکورہ 178 رائے دہندگان میں وہ 16ارکان اسمبلی بھی شامل تھے جو بقول وزیراعظم پیسہ لے کر اپنا ووٹ ضمیر بیچ چکے تھے اور آئین کی شق 63 کے مطابق صادق و امین نہیں رہے تھے کیا یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ وزیراعظم پر ان ارکان نے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے جو ضمیر فروشی کے ذریعے اسمبلی کے رکن رہنے کا حق کھو چکے تھے؟
چیف الیکشن کمشنر کا موقف آئین کے عین مطابق تھا جس پر عمل کرنے کی پاداش میں وزیراعظم نے برہمی کا اظہار کیا حالانکہ وزیراعظم نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے آئین پاکستان کی شق (5)91 میں وزیراعظم کے حلف نامہ کے الفاظ ہیں
”کہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان میں اپنے فرائض و کار ہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق ………… انجام دوں گا میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دونگا
میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ کروں گا“
آئین کی شق 226 جس کا بہت ذکر ہو چکا ہے مکرر نقل کرنا چاہوں گا تاکہ بات واضع ہو سکے کہ آیا الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخاب میں آئین پر عمل کیا ہے یا انحراف – نیز یہ کہ وزیراعظم کی تنقید آئین کی روح سے مطابقت رکھتی ہے یا اس سے آئینی انحراف کا سوال ابھرتا ہے؟
شق 226 ”تمام الیکشن آئین کے ماتحت ماسوائے وزیراعظم یا وزرایاعلیٰ ہونگے بذریعہ خفیہ رائے شماری،،
میرا سوال یہ ہے کہ آئین میں طے کئے گئے طریقہ انتخاب پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پاکستان نے سینیٹ کے جو انتخابات کرائے ہیں اس پر وزیراعظم کی تنقید سے کیا خود وزیراعظم اپنے حلف کی پاسداری نہ کرنے کے مرتکب نہیں ہو گئے؟
علاوہ ازیں کیا آئین و قانون کو سمجھنے میں بھی انہوں نے اپنی” انتہائی صلاحیت” کی عدم موجودگی کا اعتراف نہیں کیا؟ اس نااہلی کا اظہار صدارتی ریفرنس اور صدارتی فرمان کے اجراء کی سمری بھجواتے ہوئے بھی ہو چکا ہے۔
کیا وزیراعظم ان ارکان کو جو بقول ان کے بک گئے تھے معاف کرنے کا قانونی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا یہ بدنام زمانہ این آر او نہیں جو انہوں نے اپنے ”بکا“ ارکان اسمبلی کو عطا فرمایا ہے؟
زیادہ مناسب ہوتا اگر وہ معافی کا اعلان کرنے سے قبل الیکشن کمیشن سے بھی معذرت کرتے۔ میرے خیال میں گوکہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے بعد آئینی طور پر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے تاہم المیہ یہی ہے کہ مملکت پاکستان ایک آئینی ریاست ہے مگر یہاں آئین کی پاسداری کا شدید قحط جبکہ پامالی کی روایت بہت توانا ہے-
سوال یہ ہے کہ نئی صورتحال میں جبکہ جناب عمران خان قومی اسمبلی سے 178 ارکان (مشکوک) کا اعتماد حاصل کر چکے ہیں اگر الیکشن کمیشن سینیٹ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی از خود تحقیقات شروع کرے تو کیا جناب وزیراعظم الیکشن کمیشن کو اپنے ان سولہ ارکان کے نام بتانا پسند کریں گے؟ جو بکا تھے وزیراعظم انہیں اس جرم پر معافی بھی دے چکے معافی دینے کا واضح مطلب ہے کہ وہ ان 16ارکان کے ناموں سے آگاہ ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ 16ارکان کی نشاندہی کا حکم دے تاکہ انہیں ان کی نشستوں سے فارغ کیا جا سکے تو وزیراعظم ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ارکان کا تحفظ کریں گے؟ یا الیکشن کمیشن کا ساتھ دینگے تاکہ اپنے مبینہ بکاؤ ارکان پر لگائے اپنے الزام پر کاروائی کی حمایت کریں گے؟ ایسا نہ ہواتو ہارس ٹریڈنگ کا الزام بے معنی ہی رہے گا۔ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ پیسے دے کر سینیٹر منتخب ہونے والے جناب گیلانی اھل نہیں رہے تو کیا پیسے لے کر ووٹ بیچنے والے اھل قرار دیے جاسکتے ہیں؟
اس سوال کے درست جواب کا نتیجہ وہ نکلے گا پی ڈی ایم جس کے لیے برسرپیکار ہے جناب گیلانی نااھل ہویے تو حکومت بھی گر جائے گی۔ کیا اپوزیشن یہی نہیں چاھتی؟ حکومت بچانے کی کوشش میں جناب عمران خان کی آئینی سیاسی اخلاقی ساکھ داؤ پر لگ جایے گی
ویسے جناب شیخ تو برادر سلیم صافی کے روبرو فرما گئے ہیں کہ 16ارکان کے خلاف کارروائی کر کے ہم اپنی حکومت گرانا کیوں پسند کریں گے!!!،،
ملکی سیاسی صورتحال کا منظر نامہ اس صورت ابھرا ہے کہ 25 جولائی2018ء کا بنایا گیا ہائی برڈ سیاسی نظام ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے اس کے انہدام کا عمل رواں ہے۔ دریں حالات جناب یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا اس بات کی تائید ہوگی کہ کارخانہ ِ ہائی برڈ نظام اپنے تشکیلی نظام کی ناکامی تسلیم کرنے جا رہا ہے بصورت دیگر جناب گیلانی چیئرمین نہیں بن پائیں گے یوں ہائی برڈ نظام کا تسلسل برقرار رہے گا کیا اس تسلسل سے ملک میں سیاسی استحکام آنے کا ذرا سا امکان ہے؟ کیا سیاسی استحکام لائے بغیر معاشی ترقی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہو گا؟ کیا غیر مستحکم سیاسی نظم ِحکومت کی موجودگی میں دنیا کے ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان پر اعتماد کر پائیں گے؟ اگر ان سوالوں کے جوابات مثبت نہیں۔ اور پھر بھی ہائی برڈ سیاسی ڈھانچہ برقرار رکھنے پر اصرار کیا جائے گا تو اس کے صاف معنی یہ ہونگے کہ پاکستان میں مہنگائی کے جن پر قابو پانے کیلئے ہمارا ریاستی عزم مفقود ہے عوام کی معاشی بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی رت ابھی بہت دور ہے۔ بے روزگاری۔ سماجی جرائم۔ معاشی استحصال اور افلاس کا بھوت ہمارے سروں سے ٹلنے والا نہیں۔ ابھی سیاہ ِ شب میں کمی کا فوری امکان نہیں!!!###
پس ِ نوشت۔
کیا جناب عمران خان الیکشن کمیشن پر جارحانہ تنقید محض سینیٹ انتخاب کی بنا پر رہی ہے؟
بظاہر یونہی لگتا ہے لیکن عمیق غور کیا جائے تو اس تنقید کے مقاصد میں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالنا ہے تاکہ وہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ پر فیصلے سے گریز کرے کیس التوا میں رکھے اور اگر پی ٹی آئی کے خلاف فصیلہ آیے تو پہلے سے ہی ایسی فضا بنالی جایے جس میں الیکشن کمیشن جانبداری کا الزام عائد کرنا سہل ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں