حکومت کی ناک کا مسئلہ

تحریر: انورساجدی
یوسف رضا اور صادق سنجرانی کا مقابلہ حفیظ شیخ کی نسبت زیادہ سخت اور کانٹے دار ہوگا کیونکہ حفیظ شیخ کسی کے اتنے لاڈلے نہیں تھے جتنے کہ صادق سنجرانی ہیں جب انہیں چیئرمین کا امیدوار بنایا گیا تھا تو لوگوں نے ان کا نام نہیں سنا تھا ”بڑوں“ نے عمران اور زرداری یعنی آگ اور پانی کو اکٹھا کرکے اپنے امیدوار کی جیت کو یقینی بنایا بعد میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنایا گیا اور جب وہ دوبارہ الیکشن لڑنے آئے تو مدمقابل میر حاصل خان بزنجو کو 14 ووٹوں کی اکثریت حاصل تھی لیکن خفیہ رائے شماری میں 14 ووٹ دوسری جانب چلے گئے جس کی وجہ سے لاڈلے امیدوار سنجرانی کامیاب ہوگئے اس الیکشن کے کچھ عرصہ بعد پرویز رشید نے انکشاف کیا کہ دباؤں میں آنے یا بکنے والے 14 اراکین ن لیگ کے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک ان منحرف سینیٹروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
متحرک خاتون ایکٹیوسٹ ماروی سرمد نے انکشاف کیا ہے کہ زرداری سے کہہ دیا گیا ہے کہ ہمیں یوسف رضا گیلانی بطور چیئرمین سینیٹ قبول نہیں اس لئے ان کے خلاف کچھ بھی ہوسکتا ہے انہیں الیکشن کمیشن کے ذریعے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے گزشتہ نااہلی کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے اس طرح ان کی امیدواری بہت خطرے میں ہے اگر وہ بچ گئے تو ان کو ہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔ پہلے پہل زرداری سے سودے بازی کی کوشش کی جائے گی اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ وہ کچھ رعایتیں لیکر یوسف رضا کی قربانی دیں اگر یہ ممکن نہ ہوا تو ”زور اور زر“ کا ایسا استعمال کیا جائے گا جو پاکستان کی تاریخ میں اب تک دیکھنے میں نہیں آیا یعنی حکومت نے تہیہ کرلیا ہے کہ صادق سنجرانی کو ہر قیمت پر کامیاب بنانا ہے حالانکہ سرکاری اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور عمران کے طے کردہ اصول کے مطابق جس کی اکثریت ہو اسے کامیاب ہونے کا حق ہے لیکن عمران خان اپنے ہی اصول کو ایک گھنٹے بعد توڑ دیتے ہیں اس لئے انہوں نے چوروں اور ڈاکوؤں سے کسی قسم کا رابطہ نہ کرنے کا اپنا اصول توڑ دیا ہے اور جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا غفوری حیدری کو ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کی پیشکش کردی ہے یقینی طور پر پی ڈی ایم کی قیادت اس پیشکش کو مسترد کردے گی لیکن جب صادق سنجرانی اور پرویز خٹک نے مولانا کو عہدے کی پیشکش کی تو ان کی خوشی دیدنی تھی بلکہ ایک بار پھر ڈپٹی کا عہدہ سامنے پاکر ان کے منہ میں پانی بھی آگیا تھا معلوم نہیں کہ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو ان سے کونسی غلطی ہوئی تھی کہ بڑے آج تک ناراض ہیں جب افتخار چوہدری نے توہین عدالت کے جرم میں انہیں نااہلی کی سزا دی تھی تو پتہ چلا تھا کہ قابل احترام چیف جسٹس نے اوپر کے احکامات کی تعمیل کی ہے اگر دیکھا جائے تو صادق سنجرانی اور گیلانی میں زمین آسمان کا فرق ہے گیلانی کا طویل سیاسی کیریئر ہے اگرچہ وہ بھی نواز شریف کی طرح جنرل ضیاء الحق کی پیداوار ہیں لیکن ضیاء الحق کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جو تاحال جاری ہے گزشتہ انتخابات میں انہیں کامیابی سے روکنے کے لئے ان کے صاحبزادے کو اغواء کرکے افغانستان لے جایا گیا ملتان میں ان کے کیمپوں پر حملے کئے گئے ان اقدامات کا مقصد شاہ محمود قریشی کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنا اور ان کی کامیابی کو یقینی بنانا تھا چنانچہ پورے ملتان ڈویژن میں تحریک انصاف کو فاتح بنایا گیا لیکن بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شدید ناکامی سے دوچار ہوئے بلکہ تاحال شدید ناکامی سے دوچار ہیں ان کی بدقسمتی ہے کہ محکمہ خارجہ کا قلمدان ان کے نام لکھ دیا گیا لیکن حوالے نہیں کیا گیا یہ وہ محکمہ ہے کہ اسے طویل عرصہ سے براہ راست چلایا جارہا ہے بھارت سے تعلقات ہوں‘ افغان امور ہوں‘ سعودی عرب اور امارات سے معاملات ہوں یا کچھ اور کسی حکومتی شخصیت کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے اب تک شاہ محمود کو یہ امید تھی کہ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی تو باقی مدت کے لئے انہیں وزیراعظم بننے کا موقع ملے گا اور وہ بھی چوہدری شجاعت کی طرح اپنے نام کے ساتھ سابق وزیراعظم لکھ سکیں گے کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت جو بھی سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے وہ ایک ضابطہ کے تحت ہے ان کی نگرانی ایمپائرز خود کررہے ہیں بظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ایمپائر اس گیم کا بھرپورلطف اٹھارہے ہیں وہ سیاسی رہنماؤں کو کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں بلکہ ڈگڈگی ان کے ہاتھوں میں ہے اور وہ ہر لحظ ڈگڈگی بجاکر پہلے سے مختلف تماشہ برپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کیونکہ عمران خان کو اپوزیشن پر فضیلت حاصل ہے اور وہ لاڈلے بھی ہیں لیکن اس کی وجہ عمران خان کی ذات نہیں ان کی فرماں برداری ہے ان کی توپوں کا رخ اور بھرپور گالیوں اور حملوں کا ہدف اپوزیشن ہے کیونکہ حکومت ان سے چل نہیں رہی ہے وہ اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لئے دشنام طرازی اور کرپشن کے الزامات کا سہارا لے رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے ڈائیلاگ بازی ان کا خاص ہنر ہے یہی واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ سیاست کے اسرار و رموز سے ناواقف اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وزیراعظم جو بھی کرتے ہیں وہ محض ڈرامہ بازی ہے اگر وہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے خلاف ہیں تو کیسے ووٹ خریدنے والے آزاد امیدوار عبدالقادر کو اپنی جماعت میں شامل کیا کہاں ہے ان کی راست بازی اور دیانتداری انہیں چاہئے کہ وہ عبدالقادر کو شامل نہ کرتے جنہیں پہلے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کردیا گیا پھر بے عزت کرکے ٹکٹ چھین لیا اور ان کے بارے میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ایک نشست کی بولی 70 کروڑ تک پہنچ گئی ہے لیکن 11 ووٹ عبدالقادر صاحب نے 70 میں نہیں ایک سو دس کروڑ میں حاصل کئے ہونگے۔
اگرچہ صادق سنجرانی ووٹ نہیں خریدیں گے لیکن ان کے سرپرست اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے خوف سے کئی اراکین ماضی کی طرح خوف کے مارے ان کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں لہٰذا ان کا مقابلہ بہت سخت ہوگا پہلے تو کوشش کی جائے گی کہ گیلانی نااہل ہوجائیں جس کے بعد حکومت کے لئے آسانی پیدا ہوجائے گی تاہم ایسے حالات ہوئے کہ گیلانی اہل ہوئے تو حکومت کے لئے سخت مشکلات پیدا ہوجائیں گی اگر حکومت ہار گئی تو سمجھو کہ اس کی نصف طاقت ختم ہوجائے گی اور اس کا سارا پھوں پھان نکل جائے گا لہٰذا حکومت نے اس مسئلہ کو عزت اور انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم میں سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے مسئلہ پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں مولانا اور ن لیگ کا خیال ہے کہ اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اول تو تحریک کی کامیابی کے امکانات کم ہیں اگر سردار صاحب نے استعفیٰ دیا تو بھی وہ دوبارہ منتخب ہوجائیں گے اس کے برعکس لانگ مارچ کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے لانگ مارچ کی تاریخ بھی پکی نہیں ہے۔ 26 مارچ کی تاریخ کا اعلان محض دباؤ ڈالنا ہے تاکہ ایمپائرغیر جانبدار ہوجائیں یا کم از کم چیئرمین سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں زیادہ دخل اندازی نہ کریں اگر مولانا کی بات سمجھ آجائے تو ان کا پکا ارادہ ہے کہ وہ راولپنڈی پہنچ کر کافی نوش فرمائیں‘ پی ڈی ایم کے اندر باتیں چل رہی ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں یہ بیک وقت تین مقامات پر دھرنے دیئے جائیں تاہم تحریک انصاف نے تیاری کرلی ہے کہ جونہی قافلے سندھ سے پنجاب میں داخل ہوجائیں راستے بند کئے جائیں اور ”یوتھیا فورس“ کو میدان میں اتارا جائے گاجو قافلوں کو اتنا تنگ کریں کہ وہ تتر بتر ہوجائیں اگر ایسی غلطی کی گئی تو جگہ جگہ تصادم ہونگے جبکہ پشتونخوا سے آنے والے قافلے پہنچنے میں ضرور کامیاب ہونگے تحریک انصاف کے کارکن سخت اشتعال اور غصے میں ہیں جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ن لیگی رہنماؤں پر حملے کے دوران ظاہر ہوا۔
گوکہ عمران خان کو جس مقصد کے لئے لایا گیا تھا وہ پورا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ عمران خان ایک زیرک سیاسی شخصیت نہیں ہیں وہ ریاست مدینہ کے قیام‘ 18 ویں ترمیم کے خاتمے‘ این ایف سی ایوارڈ میں رد و بدل اور بلآخر موجودہ پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر صدارتی اور وحدانی نظام طرز رائج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کو لانے کا تجربہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہے وہ نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں کرسکتے پونے تین سال کی ناکام حکومت نے ان کی مقبولیت کو تقریباً صفر کردیا ہے انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں صرف اپنے کارکنوں کی حمایت ان کے ساتھ ہے جو بہت معصوم جذباتی اور ہوش و خرد سے عاری ہیں اور مخالفین سے بحث کے دوران لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں سیاست میں عمران خان کے اثرات اس حوالے سے آئندہ کچھ عرصہ تک جاری رہیں گے۔