جمہوریت کا پیمانہ، سات کا ہندسہ۔۔۔

تحریر: رشید بلوچ
کیا یہ محض اتفاق ہے سینٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی سات ووٹوں سے حفیظ شیخ کو ہرادیتے ہیں اور اتنی ہی تعدا دسے چیئر مین سینٹ کے معرکے میں صادق سنجرانی سے شکست کھا جاتے ہیں؟،سینٹ کے عام انتخابات اور چیئر مین سینٹ کے انتخاب میں سات کا ہندسہ بڑا معنی خیز ہے،دونوں فریقوں کیلئے سات کا یہ ہندسہ خوشی اور غم کا موجب بنا ہے،یہ سات رکنی جھتہ نہ اپوزیشن کا ہے نہ حکوت کا،یہ“سات”ساتھ ہیں۔
دو مارچ سے قبل تک سینٹ الیکشن میں حکومت کو اسلام آ باد کی نشست پر عددی برتری حاصل تھی لیکن اپوزیشن نے سات ووٹوں سے یہ نشست جیت لی اور حکومت ہار گئی،حکومت کے ہارنے پر پی ڈی ایم کی قیادت نے بغلیں ایسی بجائیں جیسے برطانوی طرز جمہوریت رائج کر دی گئی ہو،اپوزیشن کی چوٹی کی قیادت نے اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا نعرہ لگا“ایک زرداری سب پر بھاری”اگلے دس دن بعد اپوزیشن اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی حکومت سے چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین سینٹ کی دونوں نشستوں پر مات کھا گئی،در اصل سات کا یہ ہندسہ اپوزیشن کی جیت کے آڑے آگئی،گویا یہ سات نفری جھتہ جمہوریت اور آمریت کا پیمانہ طے کررہا ہے،اگر اپوزیشن کا ساتھ دے تو جمہوریت اور حکومت کے پلڑے میں گرے تو آمریت،یا دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کو بتایا گیا کہ جس سات ووٹ سے تم جیت سکتے ہو اسی سات کے ہندسہ تم ہار بھی سکتے ہو۔
2018 کے چیئر مین سینٹ کے انتخاب میں تمام اپوزیشن رضا ربانی کے نام پر یکسو تھی لیکن آصف علی زرداری بلاواسطہ موجودہ چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کو ادرون خانہ مدد دے کر چیئر مین سینٹ بنوانے کے موجب بن گئے،آصف علی زرداری کی صادق سنجرانی پر مہربانی کی وجہ پر پردہ اٹھاتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ سنجرانی صاحب نے زرداری صاحب کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی،سمجھ نہیں آرہی کہ آصف علی زرداری جیسے جہاں دیدہ شاطر سیاستداں صادق سنجرانی کے لارے لپے میں کیسے پھنس گئے؟ آصف علی زرداری بھلے ہی سب پر بھاری ہوں لیکن بلوچستان میں آکر ہمیشہ زیر ہوتے رہے ہیں،واجہ آصف علی زرداری کو مشورہ ہے کہ آئندہ بلوچستان پر کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے کسی بلوچستانی سے پوچھ لیا کریں۔۔
کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ سینٹ الیکشن سے ایک دن قبل مبینہ“ دھمکی“ پر میاں نوز شریف کو اپنا ویڈیو بیان جاری کرتا پڑا حالانکہ میاں نواز شریف اپنا ویڈیو بیان الیکشن نتائج کے بعد بھی جاری کر سکتے تھے؟ تعجب کی بات یہ ہے کہ“دھمکی“ والے تمام“ معاملے“ میں ن لیگ کا پورا کیپ خاموش رہی،باپ اور بیٹی بولتے رہے،معاملہ کچھ بھی ہو لیکن چیئر مین سینٹ کے ہار کی ایک بڑی وجہ میاں صاحب کا ویڈیو بیان بھی ہے،یوسف رضا گیلانی کے ہار جانے کے فوری بعد ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری کا بلاول بھٹو کے“غیر جانبداری ”والے بیان پر فوری رد عمل ظاہر کرنا بھی پی ڈی ایم کے اندر دو ہاتھیوں کی لڑائی کی روداد بیان کر رہی ہے،لگ ایسا رہا ہے کہ ن لیگ نے پیپلز پارٹی سے 2018 کا بدلہ چکا دیا ہے۔
پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں اندرونی طور پر ایک دوسرے سے“سبقت“ حاصل کرنے کیلئے ملا کھڑا کھیل کرایک دوسرے کو چت کرکے اپنی انا کو تسکین پہنچا رہی ہیں،اسکی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں فطری حریف ہیں دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ تحریک انصاف ایک عارضی چیلنج ہے اصل مقابلہ دونوں کاآپس کا ہے،پنجاب بڑا صوبہ ہے جس پر ن لیگ قابض ہے،پیپلز پارٹی سندھ میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کر رہی ہے،پنجاب کی اکثریت کی وجہ سے ن لیگ کو مرکز تک پہنچنے کیلئے کوئی بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے، ایک سندھ کی وجہ سے یا بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو ملا کر بھی پیپلز پارٹی مرکز تک نہیں پہنچ سکتی،پیپلز پارٹی کو لامحالہ پنجاب میں دھچکا دینا پڑیگا لیکن فی الحال پنجاب میں پیپلز پارٹی قدم جمانے کی پوزیشن میں نہیں،اگر پی ڈی ایم تحریک کامیاب ہوتی ہے تو سب سے زیادہ فائدہ ن لیگ سمیٹے گی،ن لیگ کو فائدہ پہنچنے کا مطلب پیپلز پارٹی کا نقصان ہونا ہے تو قطعی طور پر آصف علی زرداری ن لیگ کے فائدے میں ہاتھ نہیں بٹائیں گے۔
رہی بات پی ڈی ایم میں شامل دیگر چھوٹی جماعتوں کا تو مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم سیریز کا سائڈ کریکٹر ہیں،سائڈ کریکٹر مرکزی کردار سے“پیار”میں مار کھاتا رہتا ہے،ضروت پڑے تو آخر میں ہیرو کی خاطر“قربانی”دے کر شہید ہوجاتا ہے،دیگر ایکسٹرا کریکٹر سیریز کے آخر میں ہیرو کی خاطر تالیاں بجا کر خوش ہوتے ہیں،سیریز کی کامیابی اور ناکامی میں ایکسٹرا کریکٹر کا کوئی کردار نہیں ہوتا انہیں صرف اپنے معاوضے کی فکر ہوتی ہے،پی ڈی ایم میں ن لیگ جیتے یا پیپلز پارٹی چھوٹی جماعتیں جیتنے والے کے ساتھ ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں