قسطوں میں خودکشی کامزہ

تحریر: انورساجدی
لوگ ایک دوسرے پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیاہوا؟بھئی وہی ہوا جوہونا تھا اسکے سوا اور کیاہونا تھا۔یہ کوئی انہونی یانئی بات نہیں بلکہ طویل عرصہ سے یہی ہوتا آرہا ہے جب سنجرانی صاحب پہلی مرتبہ کھڑے ہوئے تو اس وقت نوزائیدہ باپ پارٹی کے سینیٹروں کی تعداد14نہیں تھی لیکن اسکے باوجود ان کی ”شاندار کامیابی“ کااہتمام کیا گیا دوسری مرتبہ جب میرحاصل خان بزنجو مدمقابل تھے تو اپوزیشن کے اراکین کی تعداد آج سے کہیں زیادہ تھی لیکن خفیہ بیلٹ میں 14ووٹ ادھر سے ادھر ہوگئے اس سے حکام بالا میں میرصادق سنجرانی کی مقبولیت اور پسندیدگی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اگریوسف رضا گیلانی میں زرا بھی عقل ہوتی تو وہ سنجرانی کے مدمقابل نہ آتے کیونکہ سنجرانی کوجتنا وہ جانتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا انہیں پتہ ہے کہ کس کی سفارش پر انہوں نے اس گمنام شخص کو اپنامعاون خصوصی مقرر کیا تھا اور شکایات سیل کاسربراہ بنایاگیا تھا اس کے بعد ان کی ”مسلسل گرومنگ“ کی گئی تاوقتیکہ انہیں سینیٹ کا چیئرمین بناکر دم لیا گیا عین ممکن ہے کہ2023ء کے بعد وہ انہیں صدرمملکت کے عہدے پر جلوہ افروز فرمائیں کیونکہ عارف علوی کے بعد سب سے موزوں شخصیت وہی ہیں امیدوار تو مظفرحسین شاہ بھی ہیں جنہوں نے گیلانی کے سات ووٹ مسترد کرکے ریاستی امیدوار سنجرانی کی جیت کوممکن بنایا وہ کافی پڑھے لکھے اور تجربہ کار شخصیت ہیں وفاداری ان کی گھٹی میں بھری ہوئی ہے یہ نہیں کہ یہ وصف ان کی ذات بابرکات میں ہے انکے والد محترم انگریزوں کے وفادار تھے 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ کے مسئلہ پرسائیں جی ایم سید نے لیگ سے راہیں جدا کردی تھیں وہ ضلعی سطح پر رہنے کے بعد ضیاؤ الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے1985ء کے انتخابات کے بعد سے اہم عہدوں پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہے ایک مرتبہ سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے اسپیکر بنے وفاقی وزیر رہے اور گزشتہ10برس سے فنکشنل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر ہیں چونکہ عمر کافی بڑھ چکی ہے اس لئے شائد صدرمملکت کے عہدے تک پہنچنے کی باری نہ آئے پیرانہ سالی کی وجہ سے شاہ صاحب وہ خدمات انجام نہیں دے سکتے جو صادق سنجرانی انجام دے رہے ہیں لہٰذا چیئرمین سینیٹ کے بعد صدرمملکت کے طور پر قرعہ فال بھی ان کے نام نکلے گا۔
زرداری کے امیدوار کی ناکامی سے یہ چہ میگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہے کہ ان کی حکمت عملی ناکارہ ثابت ہوگئی ہے اگرزرداری اور نوازشریف کو سابقہ تجربات کے باوجود اپنے سینیٹ ارکان پر کنٹرول حاصل نہیں تھا تو انہوں نے جوا کیوں کھیلا کم از کم میرحاصل خان کی امیدواری کے وقت جو تجربہ حاصل ہوا تھا اسے مدنظررکھتے سرکاری لوگ تویہ الزام لگارہے ہیں کہ ن لیگ نے دھوکہ دیا لیکن یہ بات سوفیصد درست نہیں ہے خود پیپلزپارٹی کے دوسینیٹرلڑھک گئے تھے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوسینیٹر بھی پی ڈی ایم کورات کی تاریکی میں داغ مفارقت دے چکے تھے سات سینیٹروں میں سے تین ضرور ن لیگ کے ہونگے ان سات سینیٹروں نے جان بوجھ کر یوسف رضا کے ووٹ خراب کئے تاکہ ریاستی امیدوار کی جیت یقینی ہوجائے کیونکہ انہیں یہی کہا گیا تھا جہاں تک ڈپٹی اسپیکر آفریدی کی جیت کاتعلق ہے تو انہوں نے پی ڈی ایم کے10ممبران توڑے تھے کیونکہ وہ کھرب پتی ہیں اور انکے لئے 10ممبران خریدنا کوئی بڑی بات نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ حسب سابق پی ڈی ایم کی جماعتیں ان سات سینیٹروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گی اور انکے بارے میں آنکھیں بند رکھیں گی یا اس مرتبہ جگربڑا کرکے کوئی مثال قائم کریں گی۔
ایک بات یادرکھنے کی ہے کہ1977ء سے اب تک ایک حکم ہی چل رہا ہے جو لوگ اس دوران حکمران بنے ہیں وہ اصل میں حکمران نہیں تھے ایک ڈھکوسلہ نظام کو برقراررکھنے کیلئے ان لوگوں کو انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے لایا گیا جعلی اوربے اختیار اسمبلیاں قائم کی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے دولخت ریاست کو سہارا دیا آئین دیا سینیٹ کی تشکیل کی لیکن ان کی اصل حکمرانی20دسمبر1971ء سے1973ء تک ہی قائم رہی اس کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ وہ بے اختیار ہوکر رہ گئے 1973ء کابلوچستان آپریشن اس کا بڑا ثبوت ہے پیپلزپارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹرمبشرحسن کے مطابق 1977ء میں بھٹو نے ان سے پوچھا کہ جوسازش ہورہی ہے اسے کیسے کنٹرول کیاجائے انہوں نے مشورہ دیا کہ طاقت کا استعمال کیاجائے لیکن بھٹو صاحب نے کہا کہ
طاقت ان سے چھن چکی ہے
اور وہ تہی دست ہوگئے ہیں
ضیاؤ الحق نے1977ء میں جس نظام کی تشکیل کی وہ تاحال برقرارہے موجودہ اسمبلیاں ضیاؤ الحق کی شورائی نظام کی مانندچل رہی ہیں نہ جانے زرداری نے کس طرح18ویں ترمیم منظور کروائی یہ عمل ان کیلئے ایک پھندا بن گیا جو حکمرانوں کوکسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
2018ء کے انتہائی انجینئرڈ الیکشن میں عمران خان کو آخری امید کے طور پر لایا گیا شدید ناکامی کے باوجود ان کی سرپرستی جاری ہے سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ ہرمرتبہ سینیٹ کے الیکشن میں 10خاص بندوں کوٹکٹ دلوایاجاتا ہے یہی لوگ حسب ضرورت کام آتے ہیں مثال کے طور پر رحمن ملک کا کیا سیاسی پس منظر ہے کہ انہیں سینیٹ کی زینت بنایاجائے یا ایک غیر سیاسی شخص مشاہدحسین میں کیا کمال ہے کہ انہیں سینیٹر بنایاجائے ایک سینیٹر ہیں بہرہ مند تنگی ایک ہیں روبینہ خالد ان میں کیاخاصیت ہے کہ زرداری انہیں کامیاب کرواتے ہیں یاٹنڈوآدم کے غیر سیاسی شخص امام الدین شوقین اور سکھر کے اسلام الدین شیخ میں معلوم نہیں کونسا سرخاب کے پرلگے ہیں یا تو سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر اوپر والوں کوخوش کرنے کیلئے ان کے لوگ لاتے ہیں یا ان سے غلطی ہوجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پلوشہ خان میں کیا بات ہے کہ انہیں سندھ سے سینیٹر بنوایا گیا اگرفرحت اللہ بابر کو یہ موقع دیا جاتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑھتے۔
ریاست کا یہ ڈھکوسلہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا پارلیمانی ادارے ربراسٹیمپ کی طرح کام جاری رکھیں گے مولانا نے تو2018ء میں ہی مشورہ دیا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیاجائے لیکن زرداری نہ مانے اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ سندھ کی وجہ سے اس نظام کے اسٹیک ہولڈر تھے اور جب پی ڈی ایم بنی تو تمام اراکین سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن زرداری نے اسمبلیوں کے اندرلڑائی کافیصلہ کیا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے
پی ڈی ایم کاحال ہنس راج ہنس
کے گائے ہوئے اس گیت کی طرح ہے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کامزہ ہم سے پوچھیئے
اگرپی ڈی ایم نے حکمت عملی تبدیل نہیں کی تو اسے قسطوں میں خودکشی کرنا پڑے گی ابھی کل کی بات ہے کہ مولانا صاحب نے فرمایا کہ لانگ مارچ کا آپشن اتنا موثر نہیں ہے ہمیں استعفوں کی طرف جانا پڑے گا گویا پی ڈی ایم ابہام کی شکار ہے وہ دوٹوک فیصلہ کرنے سے قاصر ہے اگر اسے قسطوں میں خود کشی سے مزہ آتا ہے تو بے شک وہ نظام کے اندررہ کر اسے دوام بخشے لیکن موجودہ طریقہ کار سے وہ کچھ نہیں کرسکتی اگرلانگ مارچ کرنا ہے تو دوٹوک فیصلہ کرے اگراستعفے دینے ہیں تو دیر کس بات کی اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا ہے تو آرام سے بیٹھے اور 2023ء کے انتخابات کا انتظار کرے مقتدرہ بھی کچھ وقت گزارنا چاہتا ہے تاکہ پنجاب سے ن لیگ کے اثرات کم ہوجائیں اگر ایسا ہوا تو 2023ء کے بعد ہونے والے عام انتخابات بدترین نتائج لائیں گے جس کے نتیجے میں پورا نظام تلپٹ ہوسکتا ہے اور صدارتی نظام لانے کی دیرینہ خواہش پوری ہوسکتی ہے کم از کم اور کچھ نہ ہوا تو18ویں ترمیم کا ”تمت باالخیر“ ہوسکتا ہے پی ڈی ایم کے پاس نہ زیادہ وقت ہے اور نہ ہی زیادہ آپشن زرداری نے وقتی طور پر اس کی سمت تبدیل کردی ہے اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے آیا یہ حکمت عملی کی ناکامی ہے یا دانستہ عمل اسکے بعد ہی حکومت کیخلاف تحریک موثر ہوسکتی ہے غالباً مولانا نے رمضان اور موسم کی وجہ سے کہا ہے کہ لانگ مارچ موجودہ صورتحال میں موثر ثابت نہیں ہوگا۔چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں جبری شکست کے بعد پی ڈی ایم کو نئی مگر موثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔میڈیا پر بیانات سے حالات تبدیل ہونے والے نہیں ہیں یہ صرف شغل اور مشغلہ ہے۔