کھراسچ

انور ساجدی
دوہفتے لارالپا میں گزرگئے کسی غریب کو امداد نہیں ملی دو اور ہفتے بھی اسی طرح گزرجائیں گے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی امداد کی نوبت نہیں آئے گی اسکے بعد لاک ڈاؤن ہر قیمت پر کھلے گا کیونکہ نہ حکومت اسکی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ ہی غریب لوگ مزید بھوک اور فاقے برداشت کرسکتے ہیں جمعرات کو وزیراعظم نے حسب توقع ایک اور خطاب کیا ایک بارپھر امداد کا اعادہ کیا شفافیت پرزور دیا نوجوانوں یقینی ٹائیگرفورس جو ابھی بنی نہیں پرزوردیا کہ وہ انصاف سے راشن پہنچائیں۔راشن کا ابھی تک وجود نہیں ہے اسکے لئے توبڑی تیاری کرنی پڑتی ہے پیکٹ بنانے پڑتے ہیں،پتے تلاش کرنے پڑتے ہیں،مال لیکر گوداموں میں رکھنا پڑتا ہے ابھی تک ایسی تیاری کے کوئی آثار نہیں ہیں حکومت کوپتہ ہے کہ انسان بہت سخت جان مخلوق ہے یہ یوں آسانی سے نہیں مرتا اس لئے وہ یہ مشکل وقت ٹالنا چاہتی ہے دوہفتے یاایک مہینہ کے بعد راشن ضرور تقسیم ہوگا لیکن غریبوں میں نہیں ہوگا گوداموں سے یہ سیدھا اسٹوروں میں جائے گا اور اسکے نتیجے میں حکمران جماعتوں کے لیڈر اورامیر ہوجائیں گے جبکہ محلوں کے کارکنوں کا بھی اچھا خاصا بھلاہوجائے گا اس دوران وزیراعظم کئی اور خطابات فرمائیں گے وہ انسانی المیوں وباؤں معیشت کو اٹھانے اور مستقبل کی تیاریوں کے بارے میں اپنے فلسفہ اور خیالات سے عوام کو نوازیں گے۔
ویسے تو سندھ کے وزیراعلیٰ جو کچھ کرتے ہیں ایک روز بعد دیگرصوبائی حکومتیں اسکی نقالی پیروی یا نقش قدم پر چلتی ہیں۔غالباً مراد علی شاہ نے غریبوں کو ٹالنے کا جوہنر سیکھا ہے وزیراعظم بذات خود انکی پیروی کررہے ہیں ایک ٹی وی پروگرام میں وہ کھرا سچ بول رہے تھے کہ ابھی تک سندھ حکومت نے کوئی راشن تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ فلاحی تنظیموں سے درخواست کی ہے کہ وہ غریبوں کی امداد کریں سوال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کھربوں روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے وہ کہاں اور کب خرچ ہوگا ایسا تو نہیں کہ یہ کاغذی پیکیج ہیں یہ صرف اعلان کیلئے ہے خرچ کرنے کیلئے نہیں اگر دیکھاجائے تو چاروں صوبوں سے بہتر کام گلگت،بلتستان اور آزاد کشمیر کررہے ہیں حالانکہ انکے وسائل بہت کم ہیں اور وہ وفاق کی امداد کے محتاج ہیں کہنے کو تو کشمیر ایک آزاد ریاست ہے لیکن عملی طور پر یہ پاکستانی حکومت کے ایک جوائنٹ سیکریٹری کے احکامات کے ماتحت ہے 70سال گزرجانے کے باوجود کشمیر کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھاگیا اور اسکے لوگوں کو معاشی ترقی سے محروم رکھا گیا حالانکہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اور دنیا کو دکھانے کیلئے ایک مثالی علاقہ ہونا چاہئے تھا تاکہ فرق واضح ہوتا کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر اور اس میں کتنا فرق ہے کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے مکمل لاک ڈاؤن کررکھا ہے انکے سب سے بڑے مشیر مشتاق منہاس ہیں جو ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اور اس وقت وزیراطلاعات کے عہدے پر فائز ہیں وہ خود نمائی اور بلاوجہ کی پبلسٹی کے مخالف ہیں جب گزشتہ سال مودی نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کردی تو مشتاق منہاس نے یہ مقدمہ بہت دلسوزی اورمہارت کے ساتھ لڑا۔
کہنے کو تو پاکستانی وفاق کی چار آئینی اکائیاں یا وحدتیں ہیں لیکن کبھی کبھار شک گزرتا ہے کہ بلوچستان چوتھا صوبہ ہے بھی کہ نہیں کیونکہ اسلام آباد میں بلوچستان کو ایک آئینی اکائی کی بجائے ایک ماتحت علاقہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں کی حکومتوں کو آزادانہ طور پر چلنے دینے کی بجائے ڈکٹیشن پر چلایاجاتا ہے حتیٰ کہ وزراء اور مشیر بھی میرٹ اور قابلیت کی بجائے سفارش پر مقرر کئے جاتے ہیں۔
جب نواب رئیسانی وزیراعلیٰ تھے تو یونس ملازئی کو اطلاعات کا قلمدان دیا گیا یہ صاحب پہلے کونسلر تھے اور اپنی خبروں کی اشاعت کیلئے اخبارات کے دفاتر کا چکر لگایا کرتے تھے جب وزیر ہوئے تو اپنا محکمہ چلانے کی بجائے دیگر کاموں میں لگ گئے نواب صاحب ایک اور طرح کے انسان تھے وہ معذورں اورحس مزا رکھنے والے لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے ایک دن کہنے لگے یہ خانہ خراب اطلاعات کا وزیر ہے لیکن کہتا ہے کہ میرے اخبار کو اشتہار دلانے کیلئے ڈی پی آر سے سفارش کریں اسی طرح گیلو بھی نواب صاحب کے لاڈلے وزیرتھے دونوں کی قسمت اچھی تھی کہ نواب صاحب کی مہربانیوں نے انہیں ہمیشہ کیلئے غربت کے عذاب سے نجات دلادی۔
گلگت بلتستان اگرچہ صوبہ نہیں ہے لیکن اسکی حیثیت صوبہ جیسی ہے یہ ترکیب آصف علی زرداری نے واضح کی تھی کیونکہ وہ اس علاقہ کی حیثیت صوبوں کے برابر کرنا چاہتے تھے لیکن انڈیا کے اعتراض کی وجہ سے اسے آئینی طور پر صوبہ کا درجہ نہیں دیا جب کرونا کی وبا پھیلی تو مرکزی سرکار نے اسے بے یارومدد گار چھوڑدیا وہاں کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے مکمل لاک ڈاؤن کرکے چائنا سے مدد طلب کرلی چونکہ یہ علاقہ چائنا کا ہمسایہ ہے اس لئے سنکیانگ کے گورنر نے امدادی سامان بھیجا بظاہر گلگت،بلتستان اور آزاد کشمیر دونوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے لیکن آج کل ن لیگی قیادت کو خود پتہ نہیں کہ وہاں کس کی حکومت ہے اس لئے وہ ان حکومتوں کی اخلاقی حمایت کی بجائے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں شروع میں عمران خان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ سابقہ روایات کے تحت دونوں حکومتوں کو گراکر اپنی حکومت قائم کی جائے لیکن اوپر کی سطح پر یہ تجویز مسترد کردی گئی۔
عجیب بات ہے کہ گلگت بلتستان سی پیک کانکتہ آغاز اور بلوچستان اختتام ہے لیکن دونوں سی پیک کے ثمرات سے محروم ہیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے معاہدہ کرتے وقت دونوں صوبوں کو نظرانداز کردیا اور سارے ثمرات اپنے صوبہ پنجاب کیلئے رکھے چینی حکومت نے گلگت کیلئے کچھ ماسک بھیجے ہیں لیکن بلوچستان کیلئے ایک ماسک بھی نہیں بھیجا حالانکہ سیندک گوادر اور لسبیلہ میں ڈوڈو کے مقام پر سینکڑوں چینی باشندے کام کررہے ہیں کم از کم انکے لئے ہی کچھ حفاظتی سازوسامان بھیجا جاتا۔
عالمی سطح پر کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور اس کا سب سے بڑا نشانہ امریکہ بنتا نظرآرہا ہے حالانکہ ابتدائی سازشی تھیوریوں میں کہا گیا تھا کہ یہ وائرس امریکہ کاتیار کردہ ہے بہر حال اس حقیقت کا پتہ تو کافی عرصہ بعد چلے گا سردست امریکہ میں کرونا کے متاثرین دولاکھ سے بڑھ چکے ہیں اموات چھ ہزار کے قریب ہیں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ آئندہ دو ہفتے بہت ہی عذابناک ہونگے وبا جس تیزی سے پھیل رہی ہے اسکے نتیجے میں دو لاکھ لوگ لقمہ اجل بن سکتے ہیں وہاں کی ریاستوں کے گورنراپنے صدر کو سخت کوس رہے ہیں اور انکی لاپروائی اورغیرسنجیدگی کوسخت ہدف وتنقید بنارہے ہیں ابھی تک نیویارک اور فلوریڈا کی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہیں حالانکہ فلوریدا گرم علاقہ ہے نیویارک کے گورنر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ زبانی کلامی اعلانات کررہے ہیں ہمارے اسپتالوں میں جگہ باقی نہیں رہی وینٹی لیٹر اور ٹیسٹنگ کٹ کم پڑگئے ہیں یعنی دنیا کے سب سے امیراور ترقی یافتہ ملک امریکہ کی حالت بھی ترقی پذیر ممالک جیسی ہوگئی ہے صدر ٹرمپ شرم کے مارے عالمی امداد کی اپیل بھی نہیں کرسکتے صرف روس اور چین کے صدور کوانہوں نے ٹیلی فون کیا ہے کیونکہ وہی انکے ہم مرتبہ ہیں صدرپیوٹن نے ایک ٹرانسپورٹ طیارے میں ضروری طبی آلات بھرکرامریکہ بھیجا اور چین سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ بھی ایک کی بجائے کئی طیارے بھرکر بھیجے گا کیونکہ اس کی تیاری روس سے زیادہ ہے۔
ادھر اٹلی،اسپین اور فرانس میں وبا آؤٹ آف کنٹرول ہے اٹلی کے لیڈر نیٹو اور یورپی یونین کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ اس نازک موقع پر انہوں نے کوئی مدد نہیں کی مدد کیا کرتے تمام یورپی ممالک بدترین وبا کی لپیٹ میں ہیں سارے ممالک اپنے مسائل میں گرفتار ہیں انکی معیشتیں جو80سال میں استوار ہوئی تھیں وہ زمین بوس ہوگئی ہیں انکی ترقی اورطبی سہولتوں کا بھانڈہ بھی پھوٹ گیا ہے بعض مبصرین کے مطابق جب وبا ختم ہوجائے تو یورپی یونین کو متحدرکھنا مشکل ہوجائے گا اورنیٹو کے فوجی اتحاد کو بھی زک پہنچے گی کیونکہ یہ اتحاد کمزوروں سے جنگ کرنے کیلئے ٹھیک ہے لیکن انسانیت کی مدد میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔کئی اسکالروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ کرونا کے خاتمہ کے بعد یہ دنیا بدل جائے گی ہر ملک اپنی الگ پالیسی بنائے گا جو صرف اسکے قومی مفاد میں ہوگا مغرب ضرور سراٹھائیگا لیکن اسے وقت لگے گا البتہ چین نے ہرمحاذ پرخود کو ایک سپرپاور ثابت کیا ہے دنیاکے کئی ممالک معاشی ترقی تجارت اور ٹیکنالوجی کیلئے چین کی طرف دیکھیں گے البتہ امریکہ اور یورپ کی کمزوری سے جمہوریتوں جمہوری نظام اور فریڈم آف ایکسپریشن کو شدید نقصان پہنچے گا اگرچین کو دنیا میں بالادستی حاصل ہوجائے تو اسکے تابع فرمان ممالک بھی اسی طرح کا غیر جمہوری اور آمرانہ طرز حکومت اختیار کریں گے آزاد میڈیا کے وجود کو سخت خطرات لاحق ہوجائیں گے لہٰذا چین اور روس کی بالادستی دنیا کیلئے کوئی نیک شگون ثابت نہیں ہوگا کیونکہ یہ ممالک انسانوں کو محض ایسی مخلوق سمجھتے ہیں جنہیں زندہ رہنے کیلئے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے باقی انکی افادیت کام اور محنت میں ہے اور یہ محنت ریاست کیلئے وقف ہوتی ہے اس نظام میں لوگ ریاست کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کاارتکاب نہیں کرسکتے کیونکہ یہ سب سے بڑا جرم ہوتا ہے،تھیانمن اسکوائر کی تحریک سے لیکر عہد حاضر تک چین نے جو طریقے اپنائے ہیں وہ ساری دنیا جانتی ہے کوئی وقت تھا کہ جب دنیا سوویت اور امریکن بلاک میں تقسیم تھی تو نہروناصر اور سوئیکارنو نے غیروابستہ تحریک کی بنیاد رکھی تھی مستقبل میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہوگی کہ میانہ رو ممالک خود کو چین اور امریکہ کی رسہ کشی اور سرد جنگ سے الگ رکھیں اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اس سلسلے میں برازیل ارجنٹائن،وینز ویلا،انڈونیشیا،ملائیشیا اور انڈیا اہم کردارادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان ممالک میں مودی جیسی قیادت نہ ہو کیونکہ اس وقت دنیا امریکی سامراجی اور چینی جدید سامراجی نظام کے شکنجوں میں جھکڑی ہوئی ہے کوئی درمیانی راستہ کوئی آزاد راستہ کوئی الگ راستہ بھی ہونا چاہئے جس میں احترام انسانیت اور شرف آدمیت کا بول بالا ہو۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں